لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے قائم مقام ڈین ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے قائم مقام ڈین ہیں۔

ہمارے فاضل جج صاحبان کے لیے یہ سال بہت مصروف رہا۔ اِن کی قانونی مصروفیات میں عام مقدمات سے لے کر سیاستدانوں کے رویوں تک، اور انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی سے لے کر پانی کی فراہمی و نکاسی تک کے مسائل شامل تھے۔ جہاں کئی لوگ اِن مقدمات کو معمول کا عدالتی مرحلہ کہیں گے، وہیں اُن کے نتائج میں کئی اہم پالیسی اور آپریشنل تبدیلیاں شامل ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ ملک میں 19 سال بعد مردم شماری کا انعقاد سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ سندھ کے لوگوں کو صاف پانی اور محفوظ ماحول کی فراہمی سے متعلق ایک آئینی درخواست میں عدلیہ نے سندھ حکومت پر سخت شرائط عائد کیں، جبکہ سیشن کورٹ کے حکام نے صوبے میں تعلیمی اور طبی اداروں کا دورہ کرکے جائزہ لیا۔

لاہور کی اورنج لائن ٹرین کے مقدمے میں عدالت نے حکومتِ پنجاب کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت تو دے دی مگر سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے حکم کے ساتھ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے معاملے میں بھی مداخلت کی۔

جہاں لوگوں کو انتظامیہ کے مقاصد پر شک ہے، وہاں عدالتیں عوامی فلاح پر نظر رکھنے والے ادارے کے طور پر اُبھری ہیں۔ عدلیہ اُن چند معاملات میں پالیسی ساز کا بھی کردار ادا کرلیتی ہے جو عموماً انتظامیہ کے دائرہ کار میں ہوتے ہیں، اور وہ معاملات جن کا براہِ راست تعلق ایک عام آدمی کی فلاح و بہبود سے ہوتا ہے۔ گورننس کے بنیادی معاملات میں بہتری لانے میں انتظامیہ کی ناکامی عدلیہ کے بڑھتے ہوئے کردار کی چند اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک چلانے اور انتظامیہ سے متعلق پیچیدہ معاملات سلجھانے کا ایک درست راستہ ہے؟ اور اِس پلڑے کو واپس انتظامیہ کے حق میں کس طرح جھکایا جاسکتا ہے؟

خدمات کی فراہمی میں زیادہ تر مشکلات اپنی فطرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈیزائن کی وجہ سے ہیں۔ تقریباً ہر صوبائی حکومت نے اپنے ماتحت ریگولیٹری اداروں سے اختیارات چھین لیے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے نے کراچی میں پانی کی کمی کی وجہ سے کثیر المنزلہ عمارات کی تعمیرات پر پابندی عائد کردی ہے۔ اِس کی وجہ سے بلڈروں اور ٹھیکیداروں کی صفوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے، اور وہ اب بھی اِس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیے ہوئے ہیں۔ معقول شہری خدمات کی فراہمی اور تعمیرات میں ضوابط کی پابندی، مانیٹرنگ اور کنٹرول اہم شعبے ہیں۔

مختلف مقاصد کے لیے قانونی طور پر جائز اور تکنیکی طور پر خامیوں سے پاک عمارات صحتمندانہ زندگی کی ضروریات میں سے ہیں۔ حقیقت میں حکومت اور دیگر ادارے مل کر نجی مفادات کے لیے غیر قانونی تعمیرات کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ درخواستوں اور سوموٹو ایکشن کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں نے کئی مواقعوں پر ایکشن لیا ہے تاکہ تکنیکی اور قانونی طور پر درست مثالیں قائم کی جاسکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن فیصلوں کے متضاد کام ہوتا رہا ہے۔ شہری خدمات کی فراہمی کے اُمور کی بنیادی سطح پر مینیجمنٹ عدلیہ کی نہ ذمہ داری ہے اور نہ ہی اُسے یہ مینڈیٹ حاصل ہے۔

سیاسی حلقوں کو انتظامی مشینری میں موجود خامیوں کو درست کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کئی معاملات میں سیاسی قیادت کے مفادات کرپٹ افسران یا اہلکاروں کے مفادات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ اِن میں سے کئی افسران اپنے سروس کیڈرز میں نہایت کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اِس دوران سیاسی حلقوں کی مداخلت جاری رہتی ہے۔ سندھ کے حالیہ آئی جی پولیس اپنے محکمے سے خرابیاں دور کرنے کے لیے اچھا کام کر رہے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُنہوں نے ایسا کرکے مقتدر حلقوں کو ناراض کیا جنہوں نے اُنہیں کنارے سے لگا دیا۔ بالآخر سندھ ہائی کورٹ نے اُنہیں بے ضابطہ تبادلوں سے بچایا مگر اُن کی کمان اور کارکردگی کی صلاحیت پر اُن کے سیاسی باسز کافی حد تک قدغن لگا چکے ہیں۔

اُن کے ماتحتوں کو جو پیغام ملا ہے وہ واضح ہے۔ اسٹاف اب سیاسی باسز کی ہدایات پر عمل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا ہے۔ اِس کے بدلے میں اُنہیں وہ نوازشیں ملتی ہیں جن کے بارے میں عدلیہ بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ نتیجتاً سروس اسٹرکچر تباہ ہوتا ہے، ایماندار افسران و اہلکاروں میں بے دلی پھیلتی ہے اور مجموعی طور پر ادارے کی صلاحیت کو زنگ لگ جاتا ہے۔ چنانچہ حیرت کی بات نہیں کہ پولیس جیسے اہم ترین شعبے معاشرے میں اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔

افسر حلقے انتظامیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے۔ اِن آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے غیر معمولی طور پر سخت اور کڑے معیارات کی پابندی کی جاتی تھی۔ پچھلے ادوار میں بیوروکریٹس نہایت مشکل معاملات سنبھالا کرتے تھے۔ سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کے درمیان واضح فرق موجود تھا اور عدلیہ، بیوروکریسی کے ساتھ مل کر پر کام کرتی تھی۔ سیاسی نظام اِن سب کو مل جل کر کام کرنے کا ماحول فراہم کرتا تھا۔ مقصد عوام کی خدمت کرنا ہوتا تھا۔ اسٹاف اور افسران کی مؤثر کارکردگی کا پیمانہ اُن کی ذمہ داریوں کی جانب غیر متزلزل توجہ ہوا کرتا تھا، نہ کہ حُکامِ بالا کی خوشامد بجا لانا۔

بدقسمتی سے گہری (اور ناقابلِ واپسی) سیاسی مداخلت نے بیوروکریسی کی صلاحیت اور اخلاقی معیار کو برباد کردیا ہے۔ سول سروس کے مینڈیٹ کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرکے، اداروں کی صلاحیت بڑھا کر اور اُنہیں بااختیار بناکر کافی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اِس حوالے سے عدلیہ کی کچھ معاونت بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Dec 21, 2017 11:13pm
سپریم کورٹ کے احکامات سرکاری افسران کو طاقتور بناتے ہیں کہ اپنے اختیارت کو ملک و عوام کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ لیکن ان احکامات کی روح کو جانے بغیر عملدرآمد مشکل ہوجاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے معلوم وجوہات کی بنیاد پر بلندوبالا عمارتیں بنانے پر پابندی عائد کی مگر اس کو کنٹونمنٹ اور ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کی جانب سے نظرانداز کیا جارہا ہے، اسی طرح بلڈرز مافیا نے بھی سندھ کے دیگر شہروں کا رخ کرلیا ہے، اب افسران وزیر اعلیٰ کے حکم پر اجلاس پر اجلاس تو کررہے ہیں مگر ان میں سپریم کورٹ یا پھر وزیراعلیٰ کی طرح عوام کو صاف پانی کی فراہمی کا جذبہ نظر نہیں آتا، سپریم کورٹ نے بل بورڈز لگانے پر پابندی عائد کی تو اب دیواروں پر اشتہارت لگا کر اس پر بجلی ضائع کی جارہی ہیں اور کسی بھی سرکاری ادارے کی منظوری کے بغیر کنکریٹ کے بڑے بڑے اسٹرکچر بنا کر ان کو بطور بل بورڈز استعمال کیا جارہا ہے، یا پھر بلڈنگ پر چپکائے جارہے ہیں، ایسا بھی ہے کہ بلڈنگ کے رہائشیوں کے روشنی اور ہوا کے ذرائع بند کرکے اس کی جگہ اشتہارت لگادیے گئے ہیں، کچھ کو خالی کرا کر اس کو صرف و صرف اشتہارت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
KHAN Dec 21, 2017 11:14pm
سپریم کورٹ نے صنعتکاروں کو حکم دیا کہ ہر کارخانے میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے، صنعت کاروں کو لیز اس وقت دی جاتی ہے جب وہ قانون کے مطابق اپنے کارخانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں گے، بڑی اور گندی خلاف ورزی تو یہ کرلی کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے بغیر افسران کی ملی بھگت سے کارخانے لگا دیے اور اس کے ساتھ ساتھ کروڑوں اور اربوں کمانے والے ان صنعتکاروں نے خوامخواہ کا واویلا مچانا شروع کردیا اور دھمکیاں تک دی کہ کارخانوں میں تو ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگائیں گے بلکہ حکومتی اربوں روپے کے خرچ پر کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر دیا جائے۔ حالانکہ ہر صنعت کا ٹریٹمنٹ پلانٹ الگ الگ ہوتا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح برآمدات متاثر ہوگی حالانکہ اگر کسی نے پاکستان سے برآمد کرنے والے ممالک کو بتا دیا کہ یہ اشیا ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرکے بنائی گئی ہیں تو وہ ممالک اس کی درآمد ویسے ہی روک دینگے۔ حکومت پر یہ دباؤ تو نہیں ڈالتے کہ عوام اور صنعتکاروں سے لیے گئے ٹیکسوں کا بہتر استعمال کیاجائے مگر سبسڈی، ایکسپورٹ پرموشن اسکیموں اور حکومتی فنڈ حاصل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ خیرخواہ