کیا روس افغانستان میں امن لا سکے گا؟
ماسکو میں گوناگوں افغان گروہوں اور علاقائی ممالک کے سربراہان کی گزشتہ ہفتے ملاقات علاقائی زمینی سیاست کی بدلتی ہوئی ہوا کا اشارہ ہے۔
'ماسکو فارمیٹ' قرار دیے جانے والے اس روسی اقدام کو حد سے زیادہ طویل ہو چکی افغان جنگ کا ایک علاقائی حل ڈھونڈنے کے لیے اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک سابقہ حملہ آور قوت کو اپنے پرانے دشمنوں کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھنا واقعتاً متاثر کن تھا۔
اس فارمیٹ پر کابل اور واشنگٹن کے سخت تحفظات کے باوجود 11 ممالک کی مذاکرات میں نمائندگی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ افغان طالبان کو بھی کسی بین الاقوامی فورم پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنگجو افغان وفد کے ساتھ اسی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔
بھلے ہی کابل حکومت نے باضابطہ طور پر ان مذاکرات میں شرکت نہیں کی مگر امن کوششوں کی سربراہی کرنے والی اعلیٰ امن کونسل کے ارکان اور انفرادی افغان رہنماؤں کی موجودگی نہایت نمایاں تھی۔ امریکا نے بھی چند مبصرین بھیجے تھے۔ کانفرنس نے شاید جمود کو نہ توڑا ہو مگر کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ یہ واقعی افغان طالبان کے لیے ایک سفارتی فتح تھی۔
یہ بات درست ہے کہ 'ماسکو فارمیٹ' کو ایک متوازی امن کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس فارمیٹ کا بنیادی مقصد اس مسئلے پر وسیع تر علاقائی فہم پیدا کرنا ہے۔ یہ اقدام روسی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ بھی ہے کہ وہ اب افغانستان اور خطے میں صرف ردِ عمل کی قوت بنے رہنے کے بجائے عملی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان پر روس کی پالیسی میں دوسرے کھلاڑیوں کو بھی شامل کرنے کی وجہ درحقیقت خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی ہے۔