بلوچستان کے ذہین دماغ صوبہ کیوں چھوڑ رہے ہیں
8 اگست 2016ء کو نذیر احمد کوئٹہ سول ہسپتال کے پاس تھے جب ایک بم دھماکے میں 56 وکلاء ہلاک ہوگئے۔ انہیں وہ دن اچھی طرح سے یاد ہے۔ جب دھماکہ ہوا تو ایک دیوار نے ان کی زندگی بچا لی تھی مگر ان کے 2 ساتھی اور 5 دوست موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے اگلے چند دن ان کی تدفین اور ان کا سوگ مناتے ہوئے گزارے۔
اس سے پہلے فروری 2007ء میں احمد کوئٹہ کی ضلع کچہری میں ہونے والے ایک اور دھماکے میں بچ گئے تھے جس میں 16 افراد کی جانیں گئی تھیں۔ 42 سالہ احمد بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل تھے اور انہوں نے کوئٹہ میں اپنا کریئر بنانے میں ڈیڑھ دہائی کا عرصہ صرف کیا تھا۔
مگر ماضی سے جان چھڑوانا مشکل تھا۔ حملوں کے بعد احمد کو کئی دنوں تک اس دن کی یاد دلانے والے برے خواب آتے رہے۔ ایک ماہ بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اب اس سے نمٹ نہیں پا رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پیشے اور کوئٹہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
احمد اب دبئی میں رہتے ہیں اور ایک کار شوروم میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "زندگی کریئر سے زیادہ اہم ہے۔" وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس زہریلے ماحول میں رہنا بہت مشکل تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی 2015ء کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے 100 میں سے 70 پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبران سیکیورٹی اور مالی وجوہات کی بناء پر اس سال صوبہ چھوڑ چکے ہیں۔
اگست 2016ء کے دھماکے نے ایک خلاء پیدا کر دیا۔ کوئٹہ کے پریکٹس کرنے والے 280 وکلاء میں سے 56 ہلاک ہوئے جبکہ 92 زخمی ہوئے۔ جن 30 چیمبرز میں وہ کام کرتے تھے ان میں سے 10 مکمل طور پر بند ہوگئے۔ وکلاء برادری پر 2016ء میں ہونے والے حملے کے بعد احساسِ عدم تحفظ کی وجہ سے سینکڑوں ڈاکٹر بھی صوبہ چھوڑ گئے جبکہ کئی سینیئر وکلاء بھی یہاں سے چلے گئے۔
49 سالہ الطاف جو کبھی بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر تھے، نے کیمپس میں کام کرنے کے دوران عدم تحفظ کا شکار ہو کر آسٹریلیا میں میلبورن منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں اب وہ مونبلک کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں پنجابی ہونے کی وجہ سے بھی انہیں شہر میں عدم تحفظ کا احساس رہتا تھا۔ حملوں کے بعد بچوں کو اسکول بھیجنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔
5 سال پہلے کوئٹہ چھوڑ جانے والے الطاف کا کہنا تھا کہ "سیکیورٹی [مسائل] کی وجہ سے کامیاب ٹیچر بننا مشکل تھا کیونکہ [مارے جانے کا] خطرہ رہتا تھا۔ ہم اپنی تعلیمی ذمہ داریوں سے زیادہ توجہ اپنے گھرانے کے تحفظ پر دینے لگے تھے۔" الطاف کی درخواست تھی کہ ان کا حقیقی نام استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ان کا خاندان اب بھی کوئٹہ میں رہتا ہے۔
الطاف کو اپنے طلبا کے سامنے بولنے اور انہیں پڑھانے میں خوف محسوس ہوتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں دورانِ امن تو سب صحیح چل رہا تھا مگر جب حالات خراب ہوئے تو حکومت انہیں وہ تحفظ فراہم نہیں کر سکی جس کی انہیں ضرورت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ "میری طرح کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد تھی جو [پیچھے] رہ گئی۔"