شیدی برادری کی فنکار خواتین اور ان کا مستقبل
اس کی ابتدا ایک الوداعی سیٹی سے ہوتی ہے۔ جنوبی سندھ کے کوٹری جنکشن ریلوے اسٹیشن سے سکھر ایکسپریس کراچی روانگی کے لیے تیار ہے۔ انجن اور اس کے آگے لگی ہوئی بڑی سی بتی کے ایک ساتھ آن ہوتے ہی ریلوے ٹریک میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
ٹرین میں سوار سیکڑوں لوگوں میں 6 شیدی خواتین کا ایک گروہ بھی شامل ہے۔ شیدی پاکستان کی ایک اقلیتی قوم ہے اور یہ لوگ اپنا تعلق مشرقی افریقا کے قبیلوں سے جوڑتے ہیں۔ اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے آنے والے اپنے مرد رشتے داروں کو یہ خواتین الوداع کہتی ہیں اور پھر ٹرین کے پہیے گھومنے لگتے ہیں۔ بے تحاشہ سامان اٹھائے ہوئے یہ خواتین خود گرم شال پہنے ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے سر ڈھانپ رکھے ہیں۔
سب سے بڑی عمر کی خاتون حکیمہ تحکمانہ انداز میں پوچھتی ہیں: ’پان اٹھا لیے تھے نا؟‘ باقی پانچوں خواتین متحد ہوکر جواب دیتی ہیں ’جی ادی، ہم نے اٹھا لیے تھے۔‘
سب سے نوجوان لڑکی سرگوشی میں کہتی ہے، ’پان ان کے لیے ویسے ہی ہے جیسے کلاسیکی گائیکوں کے لیے شراب۔‘ اسی لمحے ہوا ان کے پردے کی لاج رکھے بغیر تیز چلتے ہوئے ان کے سروں سے آنچل اتار پھینکتی ہے۔ ان کے سختی سے باندھے گئے جوڑوں میں سے ان کے تیل لگے سیاہ بالوں کی لٹیں باہر نکلنے لگتی ہیں۔
ماضی کی کئی شیدی خواتین کی طرح یہ سفر درحقیقت کام کے سلسلے میں ہے۔ شیدی برادری کے مرد اکثریتی طور پر کھیتی باڑی، فیکٹریوں میں مزدوری، دکانداری یا دیگر اقسام کی محنت سے وابستہ ہوتے ہیں مگر گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہو پانے کی وجہ سے خواتین بھی اپنے گھر چلانے کے لیے کام کرنے لگتی ہیں۔
تعلیم و ہنر کی کمی اور معاشی مواقع تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ شیدی خواتین وہی کام کرتی ہیں جس میں وہ ماہر ہوتی ہیں: یعنی ناچنا اور گانا۔ امیروں کی شادیوں میں ناچ گا کر وہ اپنی زبان میں 'گھور' یا 'بخشش' کما لیتی ہیں۔
مزید پڑھیے: شیدی برادری کی فنکار خواتین
کراچی کے گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومین کی سابق ڈین پروفیسر نزہت ولیم بتاتی ہیں کہ ’گھور کیش کی صورت میں دیا جاتا ہے۔‘ ان کا خاندان 2 سے 3 دہائیوں سے خواتین شیدی فنکاروں کی خدمات حاصل کر رہا ہے۔ روپے کے نوٹ اکثر دولہے کی پیشانی پر رکھے جاتے ہیں تاکہ نظرِ بد دور ہوسکے، اور پھر یہ خواتین ان نوٹوں کو اکھٹا کرلیتی ہیں۔ دوسری صورت میں پیسہ ہوا میں اچھالا جاتا ہے اور فنکار اسے زمین سے اٹھا لیتے ہیں۔ ولیم بتاتی ہیں کہ ’جتنا زیادہ گھور اچھالا جائے، لطف کا احساس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔‘