یہ 13 اگست کی بات ہے جب سندھ اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں بائیں بازو کی لبرل پیپلزپارٹی سے وابستہ تنزیلہ قمبرانی پاکستانی تاریخ کی پہلی سندھی شیدی خاتون رکن اسمبلی بن گئیں۔ شیدی براداری کے اباؤ اجداد کا تعلق افریقا سے تھا۔

2003ء میں افریقا ورلڈ میں جیا سوریا اور آر پنکھرست کے شائع ہونے والے مضامین کے مطابق شیدی لفظ عربی لفظ صاحبی سے نکلا ہے۔ اس لفظ کو پرانے وقتوں میں عرب باشندے شمالی افریقا کے ’قابلِ عزت افراد‘ کے لیے استعمال کرتے تھے جبکہ دیگر ماہرین کے مطابق اس لفظ کا تعلق تاریخی لفظ سیّدی تک جاتا ہے۔ یتین پانڈیا اور ترپتی راول اپنی کتاب امپرنٹس آف اے ملینیم (Imprints of a Millennium) میں لکھتے ہیں کہ ’شیدی سب سے پہلے 712 میں عرب سپہ سالار محمد بن قاسم کے ساتھ جنوبی ایشیاء میں آئے تھے۔ عربوں کی افریقا میں ابتدائی فتوحات کے وقت انہوں نے عرب فوجوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی‘۔

یہ برادری آج بھی انڈیا اور سری لنکا میں موجود ہے مگر سب سے زیادہ شیدی آبادی سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ڈاؤن میومیری لین کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مضمون بلیکس آف پاکستان میں لکھاری K. Kwekudee لکھتے ہیں کہ پاکستان کے جنوبی ساحلی علاقوں، خاص طور پر مکران، کراچی اور بدین میں تقریباً 2 لاکھ 25 ہزار شیدی رہائش پذیر ہیں۔

یہ تو معلوم نہیں کہ محمد بن قاسم کے ساتھ کتنی تعداد میں شیدی یہاں آئے تھے البتہ ان کی آبادی 16ویں صدی میں اس وقت بڑھی جب پرتگالی تاجر اور سیاح افریقا سے غلاموں کو لائے اور انڈیا کے امیر مسلمانوں اور ہندوؤں کو بیچنا شروع کیا۔

جینیٹ پنٹو 1992ء میں چھپنے والی اپنی کتاب سلیوری ان پورچوگیز انڈیا (Slavery in Portuguese India) میں لکھتی ہیں کہ پرتگالی ابتدائی طور پر زیادہ تر افریقی غلاموں کو وسطی افریقی خطے سے یہاں لائے تھے اور ان غلاموں کا تعلق بنتو نامی قبیلوں کے ایک بڑے گروہ سے تھا۔

پنٹو مزید لکھتی ہیں کہ جو غلام غلامی سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ انڈیا کے مختلف حصوں میں بس گئے اور ان میں سے خاصی تعداد نے بلوچستان کے مکران ساحل، کراچی اور جنوبی سندھ کے مختلف حصوں کا رخ کیا۔ یہاں انہوں نے مذہب اسلام اختیار کرلیا اور ماہی گیری اور مزدوری کرنے لگے، ان میں سے چند سندھ کی 18ویں صدی اور 19ویں صدی کی ابتداء میں تالپور عہد کی فوجوں میں شامل ہوگئے۔

مزید پڑھیے: جنگِ حیدرآباد: انگریزوں کا سندھ میں حتمی معرکہ

حالانکہ انگریزوں نے جب انڈیا کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے غلامی کا خاتمہ کردیا تھا مگر برٹش افسر اور مصنف سر رچرڈ برٹن سندھ پر لکھے گئے اپنے سفرناموں میں بتاتے ہیں کہ 19ویں صدی میں بھی غلاموں کو انڈیا میں لایا جا رہا تھا اور بیچا جا رہا تھا۔

K. Kwekudee کے مطابق غلاموں کی یہ کھیپ مشرقی افریقی علاقوں، بالخصوص مداگاسکر سے یہاں لائی جا رہی تھیں۔ مکران، کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی قصبوں میں ان شیدیوں نے بھی ماہی گیری کا کام اختیار کرلیا۔ ان میں سے کئی کراچی بندرگارہ پر گودی مزدور (ڈاک ورکرز) بن گئے جسے برٹش کی جانب سے وسیع کیا جا رہا تھا۔

شیدیوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک لیاری میں بس گئی۔ وہ بلوچی بولتے مگر وہ اپنی زبان میں کئی سواہلی الفاظ کا استعمال بھی کرتے تھے۔ وہ جس اسلام میں منتقل ہوئے تھے وہ برصغیر میں پائے جانے والے عقائد سے متاثر تھا۔ یہ جنوبی ایشیائی صوفی ازم اور قبل از اسلام کے عقائد کی صدیوں سے چلتی آ رہی عقیدوں اور روایات کا ایک امتزاج ہے۔

مثلاً، کراچی میں شیدی پیر منگو کے عقیدت مند بن گئے۔ مانا جاتا ہے کہ وہ 12ویں صدی کے صوفی بزرگ ہیں جنہوں نے کراچی کے اس علاقے میں سکونت اختیار کرلی تھی جہاں ایک سلفر کا چشمہ اور مگرمچھوں سے بھرا ایک گہرا تالاب تھا۔

13ویں صدی میں گزرجانے والے اس پیر کے حوالے سے کئی لوک داستانیں بھی وابستہ ہیں۔ چند قدیمی تحریروں میں ایک مقدس آدمی کے بارے میں اشارہ ملتا ہے جو وہاں مگرمچھوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا۔ 19ویں صدی میں برٹن نے اس داستان کے بارے میں تفصیلی تحریر قلمبند کی اور وہاں موجود اس بزرگ کے مزار پر شور و غل کے ساتھ سجائے جانے والے میلے کے تجربے کو بھی لکھا جس میں ’کراچی کے سیاہ فام لوگ‘ شرکت کرتے۔

برٹن نے لکھا ہے کہ مگرمچھوں کو جانوروں کا گوشت اور مٹھائیاں کھلائی جاتیں۔ اس علاقے کو منگھوپیر کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس علاقے کا آج بھی نام منگھوپیر ہی ہے اور آج بھی وہاں عقیدت مند مگرمچھوں کو گوشت اور مٹھائیاں کھلاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: منگھو پیر: دیومالائی داستان سے سائنس تک

گزشتہ کئی برسوں کے دوران آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو مزار کی جگہ سے مگرمچھ کی ہڈیاں ملیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہزاروں سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ رینگنے والے یہ جانور قدیم وقتوں میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے یہاں بہہ کر آگئے تھے۔ یہاں موجود تالاب بھی اس سیلاب کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ چند تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ مگرمچھوں کو کھانا کھلانے کی روایت بھی غالباً سیکڑوں برس قبل شیدیوں نے ہی متعارف کروائی تھی۔

وہ تاریخ دان دراصل مارٹی کرمپ اور ڈینٹ بی فینولو نے 2015ء میں شائع ہونے والی کتاب آئی آف نیوٹ اینڈ ٹو آف فراگ، ایڈرز فارک اینڈ لیزرڈز لیگ: دی لور اینڈ متھالوجی آف ایمفیبئنز اینڈ ریپٹائلز (Eye of Newt and Toe of Frog, Adder’s Fork and Lizard’s Leg: The Lore and Mythology of Amphibians and Reptiles) کو بنیاد بنا کر یہ دعوٰی کرتے ہیں۔ مذکورہ مصنفین لکھتے ہیں کہ صدیوں سے مداگاسکر کے باشندوں کا ماننا ہے کہ مگرمچھ مافوق الفطرت طاقت رکھتے ہیں۔ چنانچہ، 16ویں صدی سے یہاں لائے جانے والے غلاموں نے منگھوپیر کے مگرمچھوں کو پاکر اپنے اس عقیدے کو شاید قائم رکھا ہو۔

19ویں صدی کے برطانوی لوگوں کا ایک گروہ مزار پر مگرمچھوں کو کھانا کھلا رہا ہے
19ویں صدی کے برطانوی لوگوں کا ایک گروہ مزار پر مگرمچھوں کو کھانا کھلا رہا ہے

زیادہ تر شیدی اُن غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں یورپی، مغربی اور مشرقی افریقی علاقوں، خاص طور پر معروف ’بگ لیک ایریا‘ سے لائے تھے جس کے گرد یوگانڈا، تنزانیہ، جمہوریہ کانگو اور کینیا جیسے ممالک واقع ہیں۔ کئی تو یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں ان کے رشتہ دار رہتے ہیں جو یا تو مسیحی ہیں یا پھر اپنے قدیمی فطرت پرستانہ (animist) عقائد کے پیروکار ہیں۔

تاریخی اعتبار سے سندھ اور مکران میں موجود شیدی محنت کش طبقے کے لوگ ہی رہے ہیں اور لیاری جیسے علاقوں میں ان کی کثیر آبادی موجود ہے۔ وہ تشدد، منشیات یا الکحل کے نشہ، غربت اور جرائم کے مرکز بھی بنتے رہے ہیں۔ برٹن نے 19ویں صدی کے شیدی مردوں کو محنتی مگر جارحانہ بیان کیا ہے جبکہ شیدی خواتین کو اتنا ہی ’غل مچانے والی‘ لیکن ’رنگ برنگی کپڑوں کو پہننے کا شوق رکھنے والی کے طور پر بیان کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ برادری ترقی پسند رہی ہے۔ مکران میں شیدی مختلف بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی بلوچ قوم پرست جماعتوں جبکہ سندھ میں بڑی حد تک پیپلزپارٹی کے ووٹرز رہے ہیں۔

تاہم، لیاری میں خونخوار گینگ وار اور اس مسئلے کا حل نکالنے میں پیپلزپارٹی کی سندھ میں صوبائی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے اس علاقے کے کئی رہائشیوں نے آہستہ آہستہ مذہبی تنظیموں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، یہ جماعتیں 2000ء کی دہائی سے گینگ وار کے پیدا کردہ پُرتشدد حالات میں اس علاقے میں داخل ہونا شروع ہوئی تھیں۔

حتٰی کہ کٹر بریلوی جماعت تحریک لبیک بھی حالیہ انتخابات میں لیاری سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، غالب امکان ہے کہ یہ علاقہ انہی معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا شکار رہے گا جن کا سامنا یہ علاقہ تقریباً 200 برسوں سے کر رہا ہے۔

تاہم 1970ء کی دہائی سے شیدی برادری کے (بالخصوص مکران سے تعلق رکھنے والے) کئی مرد سلطنت عمان کے محکمہءِ پولیس میں ملازمت تلاش کرتے چلے آرہے ہیں۔ دہائیوں سے عمان کے دارالحکومت مسقط کی پولیس فورس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیدیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس طرح اس برادری کے کئی مردوں کو اپنے لوگوں کے حالات بہتر کرنے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ وہ اب سندھ اور مکران کے مہنگے رہائشی علاقوں میں آباد ہوچکے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں۔

مگر 2 دہائیاں قبل، جن شیدیوں نے مشرق وسطیٰ کا رخ بھی نہیں کیا تھا انہوں نے بھی اپنے بچوں کو اسکولوں اور پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کردیا تھا۔ نتیجتاً، وہ نہ صرف برادری کو لاحق کئی مسائل کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ملک کے زیادہ ترقی یافتہ اور مستحکم سماجی اور معاشی راہوں پر خود کو گامزن کیا۔ تنزیلہ قمبرانی اس کی روشن مثال ہیں۔


یہ مضمون 26 اگست 2018ء کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں