’نوکریاں نہ ہونے کا‘ جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے جب سے یہ کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اِبلاغیات کے طالبِ علموں کے لیے شاید اتنی نوکریاں نہ ہوں، تب سے بہت سے لوگ برہم ہیں تو بہت سے اپنا کلیجے تھامے ہیں، کیونکہ جب ’اطلاعات‘ کا وفاقی وزیر یہ بات کہہ رہا ہو تو پھر یہ بہت معنی خیز ہوجاتا ہے۔
بہت سے حلقوں نے اسے انتباہ سے زیادہ ’دھمکی‘ کہا، کہ فواد چوہدری ’ذرائع اِبلاغ‘ کے موجودہ بحران کو ’حقیقت کا جھٹکا‘ قرار دیتے ہیں، لیکن عجیب بات تھی کہ وہ مستقبل کے صحافیوں کی نوکریوں سے ناامید ہوکر بھی اگلے سانس میں ’پاکستان میڈیا یونیورسٹی‘ بنانے کی بھی بات کرجاتے ہیں۔
خیر، ہم جیسوں کا معاملہ یہ ہے کہ قلم کی یہ مزدوری ہماری روزی روٹی کا ایک وسیلہ ضرور ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ہم کچھ اپنے شوق اور کچھ سماجی ذمہ داری ادا کرنے کی نیت سے اس ’وادی پُرخار‘ میں آئے، جہاں ہر لمحہ ہمارے ضمیر کی عدالت لگی رہتی ہے۔
یہ تو اتفاق تھا کہ جب ہم نے یہاں کا رخ کیا تو یہ شعبہ ایک دم بہت عروج پر گامزن ہوگیا اور پھر شہرت اور چمک دمک دیکھ کر بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے یہاں کا رخ کرلیا، ہم فقط نوکری کے پیچھے یہاں دوڑنے والے ہجوم میں کہیں کھو ضرور گئے، لیکن کبھی اس بھیڑ کا حصہ نہ بن سکے!
آج ہماری ضروریاتِ زندگی اس وسیلے سے پوری ضرور ہوتی ہیں، لیکن ہمارا شمار صحافیوں کے اس حلقے میں ہے، جن کا مطمع نظر تنخواہ اور مراعات سے زیادہ قلبی اطمینان اور سکون ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم مالیات کے اس گوشوارے میں اکثر ’خسارے‘ کا سودا کرتے ہیں، اور زیادہ مراعات کی بہت سی نوکریاں محض ضمیر کے عدم اطمینان کے سبب اختیار نہیں کرتے یا چھوڑ دیتے ہیں!