ونسٹن چرچل: دوسری جنگِ عظیم کا فاتح لیکن سفاک حکمراں
محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، لیکن عالمی سیاست کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت بھی گزری ہے، جس نے اپنے لیے صرف ’جنگ‘ کا انتخاب کیا اور اس فیصلے کے ذریعے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی۔
دوسری عالمی جنگِ عظیم کا فاتح اور اس وقت کے انگلستان کا وزیرِاعظم ’ونسٹن چرچل‘ صرف جنگجو ہی نہیں بلکہ فنونِ لطیفہ کا بھی رسیا تھا۔ ادب، مصوری، صحافت اور ثقافت بھی اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی تھی۔ اس نے ہمیشہ زندگی کے سارے فیصلے عقل سے کیے، دل کو قریب نہ بھٹکنے دیا، یہی وجہ ہے کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھے، تو اس کے منہ سے ادا ہونے والے آخری الفاظ کچھ یوں تھے، ’میں اس سب کے ساتھ بور ہوگیا ہوں۔‘
ونسٹن چرچل کو سیاست ورثے میں ملی تھی۔ اس کے والد ’لارڈ نڈولف‘ معروف برطانوی سیاست دان تھے، جبکہ ماں ’جینی‘ امریکی یہودی خاتون تھی۔ وہ 30 نومبر 1874ء کو برطانیہ میں اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا۔ 18ویں صدی میں برطانوی بادشاہت کی طرف سے چرچل کے خاندان کی عسکری خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔
برِصغیر کو جب انگریز اپنی کالونی بنانے کے منصوبے بنا رہے تھے اور حکومتی سطح پر اس کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تو انہی حکمرانوں اور پارلیمنٹ کے ممبران میں سے ایک چرچل کے دادا ’جون اسپنسر‘ بھی شاملِ حال تھے۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کے والد ’لارڈ رینڈولف‘ اور پھر یہ خود اس حکومتی اشرافیہ کا حصہ بنا۔