ملکی ترقی کیلئے خصوصی افراد کو استعمال کرنا ناگزیر ہے
ہیلن کیلر سے ایک دفعہ ان کی جہت مسلسل اور غیر معمولی کامیابیوں کا راز پوچھا گیا تو دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حس سے محروم اس بے انتہاء صلاحیتیوں کی حامل خاتون نے برجستہ جواب دیا تھا کہ 'قدرت جب ایک دروازہ بند کرتی ہے تو کوئی دوسرا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے، مگر اکثر اوقات ہم بند دروازے کے کھلنے یا کسی معجزے کے انتظار میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ ہمیں کھلا دروازہ نظر ہی نہیں آتا'۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حساسیت، تنہائی اور احساس کمتری کے اندھیروں سے نکال کر ان کھلے دروازوں کی جانب توجہ دلانے میں معاشرے پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور پاکستان کی کل آبادی کے 20 کروڑ صحت مند افراد ان 10 لاکھ معذوروں کی اخلاقی اور عملی مدد کر کے کس حد تک ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں؟
پاکستان میں معذور افراد کی مجموعی حالت زار کا جائزہ لے کر مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی عار نہیں کہ ہماری حکومت سے لے کر خاندان کے افراد تک کوئی بھی ان ذمہ داریوں کا 10 فیصد حصہ بھی پورا نہیں کر رہا، ہر جانب نفسا نفسی کا عالم ہے اور معاشرتی بے حسی عروج پر ہے، اس کشیدہ صورتحال میں یہ خصوصی افراد ہر جانب مایوسی سے دیکھتے، تنہائیوں میں زندگی گزارتے اور ہر آئے روز اپنے احساس محرومی سے لڑتے نظر آتے ہیں۔
احساس محرومی، تنہائی اور خود سے لڑنے والے ان 10 لاکھ افراد کو ایک نئی زندگی دینے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کچھ ایسے کام شروع کرنے ہوں گے، جو نہ صرف ان خصوصی افراد کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے جائیں گے بلکہ ان کاموں کے شروع کرنے کے بعد ہم بھی اجتماعی طور پر بطور ایک قوم اچھا محسوس کرنے لگیں گے۔
ہمیں اجتماعی، حکومتی اور ریاستی سطح پر فوری طور پر پاکستان کے معذور افراد کو معاشرے کا سرگرم حصہ بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے پڑیں گے۔