ملکی ترقی کیلئے خصوصی افراد کو استعمال کرنا ناگزیر ہے

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2018
پاکستان میں 10 لاکھ معذور افراد موجود ہیں—فوٹو: این ایف ڈبلیوڈبلیو ڈی
پاکستان میں 10 لاکھ معذور افراد موجود ہیں—فوٹو: این ایف ڈبلیوڈبلیو ڈی

ہیلن کیلر سے ایک دفعہ ان کی جہت مسلسل اور غیر معمولی کامیابیوں کا راز پوچھا گیا تو دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حس سے محروم اس بے انتہاء صلاحیتیوں کی حامل خاتون نے برجستہ جواب دیا تھا کہ 'قدرت جب ایک دروازہ بند کرتی ہے تو کوئی دوسرا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے، مگر اکثر اوقات ہم بند دروازے کے کھلنے یا کسی معجزے کے انتظار میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ ہمیں کھلا دروازہ نظر ہی نہیں آتا'۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حساسیت، تنہائی اور احساس کمتری کے اندھیروں سے نکال کر ان کھلے دروازوں کی جانب توجہ دلانے میں معاشرے پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور پاکستان کی کل آبادی کے 20 کروڑ صحت مند افراد ان 10 لاکھ معذوروں کی اخلاقی اور عملی مدد کر کے کس حد تک ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں؟

پاکستان میں معذور افراد کی مجموعی حالت زار کا جائزہ لے کر مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی عار نہیں کہ ہماری حکومت سے لے کر خاندان کے افراد تک کوئی بھی ان ذمہ داریوں کا 10 فیصد حصہ بھی پورا نہیں کر رہا، ہر جانب نفسا نفسی کا عالم ہے اور معاشرتی بے حسی عروج پر ہے، اس کشیدہ صورتحال میں یہ خصوصی افراد ہر جانب مایوسی سے دیکھتے، تنہائیوں میں زندگی گزارتے اور ہر آئے روز اپنے احساس محرومی سے لڑتے نظر آتے ہیں۔

احساس محرومی، تنہائی اور خود سے لڑنے والے ان 10 لاکھ افراد کو ایک نئی زندگی دینے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کچھ ایسے کام شروع کرنے ہوں گے، جو نہ صرف ان خصوصی افراد کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے جائیں گے بلکہ ان کاموں کے شروع کرنے کے بعد ہم بھی اجتماعی طور پر بطور ایک قوم اچھا محسوس کرنے لگیں گے۔

ہمیں اجتماعی، حکومتی اور ریاستی سطح پر فوری طور پر پاکستان کے معذور افراد کو معاشرے کا سرگرم حصہ بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے پڑیں گے۔

خصوصی افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے—فوٹو: اسلام آباد سین
خصوصی افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے—فوٹو: اسلام آباد سین

پاکستان میں خصوصی افراد کے لیے ایک مکمل اور جامع شماریات کی اشد ضرورت ہے، ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمیں نئی مردم شماری کے باوجود معاشرے کے ان قابل ترین افراد کی صحیح تعداد کا بھی علم نہیں، تمام بڑے چھوٹے شہروں میں خصوصی افراد کے لیے خصوصی مراکز بنائے جائیں جہاں وہ اپنی شناخت درج کروا سکیں یا این جی اوز کی موبائل ٹیموں کے ذریعے ان سے متعلق درست اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور ساتھ ہی ان کی معذوری کی نوعیت اور ذریعہ روزگار کی معلومات بھی درج ہوں۔

مکمل اور درست اعداد و شمار کے بعد معذور افراد کی کیریئر کاؤنسلنگ کے لیے اقدامات کیے جائیں کہ کس طرح کی معذوری کا شکار افراد کے لیے کون سے شعبے زیادہ فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔

آج پاکستانی میڈیا بہت ترقی کر چکا ہے اور ملک میں ڈرامہ اور نیوز چینلز کی بھرمار نظر آتی ہے، لہذا میڈیا میں خصوصی افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق متعارف کروانے کے لیے انتطامات کیے جانے چاہیں اور ساتھ ہی ان کے معاشرتی و نفسیاتی مسائل پر ڈرامے یا فلمیں تیار کی جائیں، جن کے ذریعے معاشرے میں یہ شعور اجاگر کیا جاسکے کہ ان افراد کا بھی محبت، شادی اور گھر بار کی دیگر خوشیوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا صحت مند افراد کا ہے۔

خصوصی افراد کے لیے ایوانوں میں کوٹا مختص ہونا چاہیے—فائل فوٹو: ڈان
خصوصی افراد کے لیے ایوانوں میں کوٹا مختص ہونا چاہیے—فائل فوٹو: ڈان

اس کی ایک روشن مثال اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی پر مبنی فلم' تھیوری آف ایوری تھنگ' بھی ہے جو چند برس قبل نہ صرف عوامی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی تھی بلکہ اس نے کئی اہم ایوارڈز حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ آسکر ایوارڈز کے لیے نامزدگی بھی حاصل کی تھی۔

بھارت میں ہیلن کیلر کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم 'بلیک' نے بھی آسکر ایوارڈ کی نامزدگی حاصل کی تھی، اس طرح کی فلمیں یا ڈرامے ان لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں جن کا رجحان پڑھنے لکھنے کی جانب نہیں اور اپنی لا علمی یا کم ظرفی کے باعث وہ اپنے گھر یا خاندان میں موجود معذور فرد کی اخلاقی یا عملی مدد نہیں کرتے۔

اس حوالے سے پاکستان کے میڈیا گروپ ڈان اور ڈی ڈبلیو شارٹ فلمز اور ڈاکومیٹریز کے مقابلے منعقد کروانے میں کافی شہرت رکھتے ہیں اور کیا اچھا ہو کہ ان میڈیا گروپس کو خصوصی افراد کی جدوجہد کی داستانوں کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے وقتا فوقتا ایسے مقابلے کروانے چاہیں۔

انہیں خصوصی تربیت فراہم کی جانی چاہیے—فوٹو: موورک پاکستانیز
انہیں خصوصی تربیت فراہم کی جانی چاہیے—فوٹو: موورک پاکستانیز

اسکولوں میں معذور بچوں کے لیے مناسب سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ اساتذہ کو خصوصی تربیت دی جائے کہ وہ ان میں احساس محرومی و تنہائی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دیگر بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور اپنی صلاحیتوں کے کھل کر جوہر دکھانے کا موقع فراہم کریں۔

تدریسی کتابوں میں اسٹٹیفن ہاکنگ، ہیلن کیلر، جان ہاکن بیری، رالف برون ، منیبہ مزاری اور میرلی میٹلن سمیت ایسے کامیاب افراد کی سوانح حیات یا کارناموں کو شامل کیا جائے جنہوں نے اپنے عزائم اور حوصلے سے یہ ثابت کیا کہ 'جسم معذور ہوسکتے ہیں مگر صلاحیتیں کبھی معذور نہیں ہوتیں'۔

عموما دیکھا گیا ہے کہ ذہنی یا دماغی امراض کا شکار بچے جو پڑھائی میں زیادہ تیز نہیں ہوتے وہ ایتھلیٹک یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لہذا کالج اور یونیورسٹیوں میں ایسے طلباء و طالبات کو عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے اسکالر شپ دی جانی چاہیں، اس سے نہ صرف مستقبل میں کیریئر کے حوالے سے ان کے تحفظات ختم ہوں گے بلکہ سفر کرنے اور نئے لوگوں سے ملنے سے ان کی خود اعتمادی بڑھے گی اور دوروں کے دوران کئی ممالک میں علاج کی بہتر سہولیات دستیاب ہونے سے انہیں اپنے ذہنی و نفسیاتی مسائل پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

ان کے لیے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی کوٹا پر عمل کیا جائے—فوٹو: فیس بک
ان کے لیے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی کوٹا پر عمل کیا جائے—فوٹو: فیس بک

ملک کی تمام بڑی یونیورسٹیوں میں 'ڈس ایبیلیٹی اسٹڈیز ' کے ڈپارٹمنٹ قائم کیے جائیں جہاں نہ صرف ان کے مسائل سے متعلق ریسرچ کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں بلکہ طلبہ کو تھیسز یا فائنل ایئر پراجیکٹ میں ایسے ٹاسک دیے جائیں، جن سے مختلف طرح کی معذوریوں پر قابو پا نے میں مدد ملے، یہ طریقہ کار انجینئرنگ یونیورسٹیز میں بھی اختیار کیا جانا چاہیے اور ایسے پراجیکٹ پر تحقیقات میں حوصلہ افزائی کی جائے جن کے ذریعے معذور افراد کو جدید تکنیکی سہولیات حاصل ہو سکیں۔

اردو سافٹ ویئر کے ساتھ ایسی موبائل ایپلیشنز تیار کی جائیں جن کی مدد سے بولنے یا سننے کی صلاحیت سے محروم افراد کے رابطے کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

عموما نابینا اور چلنے پھرنے سے معذور افراد کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا دورانِ سفر ہوتا ہے اور بہت سے کیسز میں متاثرہ فرد کو مکمل طور پر گھر کے کسی فرد پر انحصار کرنا پڑتا ہے، لہذا پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی افراد کی بے دقت آمد ورفت کے انتظامات کرنے کے علاوہ ہوٹلوں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں بھی ویل چیئرز سے نقل و حرکت کو آسان بنانے کے انتطامات کیے جانے چاہیں۔

اسی طرح پاکستان کے تمام ریلوے اسٹیشنز اور ایئر پورٹس پر بھی ایسا نظام متعارف کرایا جائے جس سے یہ افراد ریل گاڑی اور جہاز تک کسی کی مدد کے بغیر پہنچ سکیں، سفر کے مسائل حل ہونے سے معذور افراد کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور وہ اپنے خول سے باہر آکر زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکیں گے۔

نجی اداروں، عام جگہوں، گھروں، پولیس تھانوں، عدالتوں اور حکومتی دفاتر میں خصوصی افراد سے ناروا سلوک کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر پالیسی بنائی جائے۔

نامور خصوصی افراد کی کوششوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے—فوٹو: منیبہ مزاری ٹوئٹر
نامور خصوصی افراد کی کوششوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے—فوٹو: منیبہ مزاری ٹوئٹر

سرکاری دفاتر میں شناختی کارڈ بنوانے اور دیگر اہم کاموں کے سلسلے میں معذور افراد کو سالوں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی عزت نفس شدید متاثر ہوتی ہے اور وہ خودکشی جیسے سنگین اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ان کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنائے جائیں، جو ان کو اولیت اور ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کریں۔

ایک مؤثر پالیسی کے علاوہ خصوصی افراد کے لیے اہم اداروں میں ایک شکایت سیل بنایا جائے تاکہ ان کی بر وقت داد رسی کی جاسکے اور نہ خوشگوار رویے کے حامل افراد کو فورا سزا بھی ملے۔

پاکستان میں بہت کم افراد شاید اس حقیقت سے واقف ہوں کہ سابق امریکی صدر فرینکلین روزویلٹ بھی ویل چیئر استعمال کرنے والے افراد میں شامل تھے، روزویلٹ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز پر ہی پولیو کے باعث چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے، مغربی ممالک میں جسمانی نقائص کا شکار افراد بلا خوف و خطر سیاست اور انتخابات میں حصہ لیتے ہیں مگر پاکستان میں ان 10 لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے سیاست تو کیا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کی جاتی اور 2018 کے الیکشن میں بھی لمبی لائنوں میں لگ کر گھنٹوں انتظار کے باوجود انہیں انتخابی عملے کے نامناسب رویے کا سامنا رہا۔

خصوصی افراد کو اسپورٹس کے ہر شعبے میں مواقع دینے چاہیے—فائل فوٹو: ڈان
خصوصی افراد کو اسپورٹس کے ہر شعبے میں مواقع دینے چاہیے—فائل فوٹو: ڈان

عمران خان کی سربراہی میں نئی حکومت کو الیکشن کمیشن کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ خصوصی افراد کو ووٹنگ کے عمل میں شامل کرنے اور انہیں ان کے جسمانی خدو خال کے مطابق سہولیات فراہم کرنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی بنائے تاکہ یہ لوگ بھی ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ جسمانی نقائص کا شکار افراد کو رکنیت دینے کے بعد اپنے پلیٹ فارم سے اگلے الیکشن میں انہیں ٹکٹ دینے کی بھی کوشش کریں، اس طرح یہ انتہائی با صلاحیت افراد اسمبلیوں اور وزارتوں تک پہنچ کر نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ ظلم و نا انصافی کی چکی میں پستی باقی عوام کی فلاح کے لیے بھی بہترین کام سرانجام دے سکیں گے۔

لیکن ان سب تجاویز پر عمل کرنے سے پہلے سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے، پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی اور خود غرضی کے باعث صحت مند افراد بھی ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے مشکل حالات میں کنارہ کشی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

والدین اپنے ہاں جنم لینے والے معذور بچوں کو توجہ اور محبت دینے کے بجائے انہیں خصوصی اسکولوں یا ہاسٹلز میں ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور یوں بچپن سے ان کی رگوں میں احساس محرومی اور تنہائی کا زہر سرایت کرنے لگتا ہے جو مستقبل میں ایک کامیاب زندگی حاصل کر لینے کے باوجود بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

یاد رکھیے! خصوصی افراد غیروں سے زیادہ اپنوں کی توجہ، خلوص ،محبت اور اپنائیت کے طلبگار ہیں۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔


نوٹ: یہ مضمون ریڈ کراس کی جانب سے منعقد کیے گئے مقابلہ مضمون نویسی کے پہلے 10 مضامین میں شامل تھا اور ریڈ کراس کی اجازت کے بعد ہی اسے مختصر کر کے شائع کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں