مدھیہ پردیش کٹر ہندو سیاست کی حامی ریاست سمجھی جاتی ہے لیکن یہاں مسلم ووٹ بینک نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان، بی جے پی کے 38 سالہ سیاسی تاریخ میں کبھی بھی ’ووٹر ٹارگٹ‘ نہیں رہے۔ مگر حکمراں جماعت کو ڈر تھا کہ کہیں کانگریس مسلم ووٹر کا فائدہ نہ اٹھا لے، لہٰذا مسلمانوں کو نفسیاتی مار مارنے کے لیے بی جے پی کے بڑے راہ نماؤں نے مسلم ووٹر کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کو مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدوار نہیں مل رہے تھے۔ کڑی تنقید کا سامنا ہوا تو مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں فاطمہ رسول صدیقی کو بی جے پی کا رکن بنایا گیا اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی انہیں سیاسی بساط بی جے پی کی واحد مسلم امیدوار کے طور پر کھڑا کردیا گیا جو کانگریس کے عارف عقیل کے ہاتھوں ہار گئیں۔
15 سال بعد بھارتی سیاست میں اپنی واپسی کرنے والی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو بڑے سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے۔ یقیناً تازہ ریاستی نتائج سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہوگا لیکن ان کو سمجھنا ہوگا کہ عوام صاف پانی، غذا، تعلیم، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اہم مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ فضائی آلودگی پر فوری توجہ چاہتے ہیں اور بھارتی عورت کو تحفظ ہی نہیں بلکہ مندر میں جانے کی اجازت بھی چاہیے۔
کانگریس اپنی اس کامیابی کو دوام بخشنا چاہتی ہے تو پھر نوجوان ووٹرز اور ان کی سیاسی سوچ پر بھی توجہ دینا ہوگی کیونکہ بھارت کی 17 اعشاریہ 69 فیصد آبادی 15 سے 24 سال کے درمیان ہے جبکہ 41 فیصد آبادی 25 سے 54 سال کے درمیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتی آبادی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی بھارتی سیاست میں اپنا کردار ادا کر ے گی۔
بھارتی وزیراعظم مودی عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ کسانوں کی حالتِ زار سے آنکھیں چراتے رہے، اگر ان کے جائز مطالبات کو بروقت توجہ دیتے تو عین ممکن تھا کہ ووٹوں کا تناسب اور نشستوں کی تعداد کچھ اور ہوتی۔ گانگریس کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والا اور عوام دوست بھارت کا خواب بھارتی عوام کی آنکھوں میں سجا ہوا ہے۔ ان کے خواب کو نہ توڑیں ورنہ بی جے پی کا حشر سب کے سامنے ہے۔