جہاں صارفین کو خود سے اس رسک کا اندازہ لگانا لازمی ہے وہیں عوامی صحت کے متعلقہ اداروں کو امریکا میں چلنے والے مقدمات کے نتائج کا لازمی طور پر جائزہ لینا چاہیے اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا پاکستان میں بھی اس حوالے سے وارننگز دی جانی چاہئیں یا نہیں۔
آخر میں وکلا کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہیں ہمارے پاس تو ایسے متاثرہ افراد موجود نہیں جن کی جانب سے ابتدائی مقدمات اور نیو یارک ٹائمز کی تحقیق کے انکشاف کردہ ثبوت کی بنیاد پر کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہو۔
جدید زندگی چاہے امریکا میں ہو یا پاکستان میں، یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں، اس میں کیمیکل کا مسلسل اور حد سے زیادہ استعمال تو لازمی ہوتا ہے۔ ہم جو چیز کھاتے ہیں، جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، یا جو مصنوعات استعمال کرتے ہیں ان سب میں کیمیکل ہوتا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا کینسر سے جان چھڑانا بہت ہی مشکل ہے حتیٰ کہ ہمیں آگاہی بھی ہوتی ہے کہ ان میں سے چند چیزوں (مثلاً، سگریٹ کا دھواں، جو پاکستان کے تقریباً ہر دفتر اور ہر گھر میں موجود ہوتا ہے) میں کینسر کا باعث بننے والے جز شامل ہیں۔
جہاں تک بیبی پاؤڈر کی بات ہے تو زیادہ تر مائیں کسی قسم کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گی۔ اگر انہیں بیبی پاؤڈر استعمال ہی کرنا ہے تو وہ ٹالک والے پاؤڈر کے ساتھ رسک لینے کے بجائے کارن اسٹارچ سے بننے والے نئے ورژن کا بھی انتخاب کرسکتی ہیں۔
یہ مضمون 19 دسمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔