رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

وہ جس کی مہک دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی ہے۔ جی ہاں جانسن اینڈ جانسن بیبی پاؤڈر کی خوشبو جسے مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کے لیے استعمال کرتی ہیں اور پھر بچپن کے ابتدائی عرصے بلکہ بلوغت کے زمانے تک بھی اس کا استعمال جاری رہتا ہے۔ کئی برسوں سے یہ پراڈکٹ صفائی اور خیال کا استعارہ بھی بنا رہا ہے، جس کا دعویٰ اس پراڈکٹ کے اشتہارات بھی کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ شاید اب بدلنے والا ہے۔ گزشتہ گرمیوں میں امریکی ریاست میزوری میں سینٹ لوئس کی عدالت نے کمپنی کو ان 22 درخواست گزاروں کی جانب سے دائر کئے گئے کیس میں ریکارڈ 4.69 ارب ڈالر ہرجانہ دینے کا فیصلہ سنایا۔

درخواست گزاروں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ کمپنی نے صارفین کو ٹالکم پاؤڈر میں شامل خطرناک حد تک کینسر کا باعث بننے والے کیمیکلز کے بارے میں انتباہ نہیں کیا تھا۔ عدالت میں درخواست دینے والے اووریئن کینسر (ovarian cancer) کا شکار ہوئے تھے۔ اس بڑے فیصلے کو سنانے کا مقصد کمپنی کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس قسم کی کوئی کوتاہی قابلِ قبول نہیں ہے۔ جب مقدمہ عدالت میں چلنا شروع ہوا تو اس وقت تک 6 درخواست گزاروں کی اوریئن کینسر کے باعث موت واقع ہوچکی تھی۔

گزشتہ ہفتے، ایک اور خبر منظر عام پر آئی۔ نیو یارک ٹائمز نے پہلے صفحے پر خبر شایع کی کہ کس طرح کمپنی کی اعلیٰ انتظامیہ کو بظاہر طور پر 1971ء سے اپنے پراڈکٹ میں شامل کیمیکل کے بارے میں آگاہی تھی۔ اخبار نے اس امریکی قانون کے تحت دستاویزات حاصل کیے تھے جس کے تحت چند اقسام کے ریکارڈز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق اس معاملے پر داخلی طور پر بات چیت اور بحث و مباحثہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ معاملے کے حل کے لیے چند طریقے بھی دیے گئے تھے، جن میں اپنے ٹالکم پاؤڈر سے ٹالک (talc) کو ختم کرنا بھی شامل تھا۔ اس مضمون میں مفصل انداز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ان تحقیقوں کو مسترد اور دبایا گیا جنہوں نے پاؤڈر میں شامل کیمیکل کی موجودگی کو ظاہر کیا تھا۔

کمپنی کی اعلیٰ انتظامیہ نے اس بارے میں بات چیت کی کہ کس طرح بیبی پاؤڈر ان کے تمام پراڈکٹس میں مقدس ترین حیثیت رکھتا ہے اور اس کے اجزا کی تبدیلی یا وارننگز کے اضافے سے کمپنی کے منافع کو زبردست حد تک نقصان پہنچے گا۔ نتیجہ سب کو پتہ ہے: صارفین کو کسی قسم کی کوئی وارننگ نہیں دی گئی اور ٹالک کا استعمال بھی جاری رہا۔

تاہم، حالیہ برسوں میں کمپنی نے پاؤڈر کا ایک متبادل ورژن بنانا شروع کردیا ہے جس میں ٹالک شامل نہیں اور اس میں صرف کارن اسٹارچ شامل ہے۔ گزشتہ گرمیوں میں جو فیصلہ سامنے آیا اور جس ممکنہ تعلق کا بھی انکشاف ہوا تو اس کے بعد کمپنی کے اسٹاک 11 فیصد گرگئے۔ گزشتہ ہفتے نیو یارک ٹائمز کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد سے کمپنی کے اسٹاک مزید گرگئے ہیں۔ ایک دفاعی حربے کے تحت نیو یارک ٹائمز میں ایک پورے صفحے پر مشتمل اشتہار چھپوایا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ ٹالک اور اوریئن کینسر کے درمیان تعلق کی سائنس یقین سے پرے ہے، ساتھ ہی ان تمام صحت اور حفاظتی اقدامات کو ایک ایک کرکے بیان کیا گیا جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کمپنی نے اٹھائے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ’آر ٹالک از سیف‘ نامی ویب سائٹ بھی صارفین کے خدشات کو دُور کرنے کے لیے متعارف کروائی گئی ہے۔

اس قسم کے اقدامات اس لیے اٹھائے گئے ہیں کیونکہ کمپنی جانتی ہے اس کے پراڈکٹ کی فروخت کا دارومدار صارف کے اعتماد اور یقین پر ہوتا ہے، خاص طور پر جب بات بچوں کے پراڈکٹس کی آتی ہے۔ صارفین نے پراڈکٹ میں اعتماد یا تو پراڈکٹ اور کینسر کے درمیان ممکنہ تعلق کا علم ہونے پر کھودیا یا پھر پراڈکٹس سے جڑی احتیاطی تدابیر سے متعلق کمپنی کی غفلت کا انکشاف ہونے پر۔ ویب سائٹس اور بنیادی سوالات کے جوابات ساتھ ہی ساتھ پورے صفحے پر مشتمل اشتہارات، سب ہی اس بات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ اوریئن کینسر اور ٹالک کے درمیان تعلق مشکوک ہے۔

کمپنی کے چند دفاعی جوابات کسی حد تک تصدیق شدہ ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر امریکن کینسر سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ٹالک کے کینسر سے تعلق کے حوالے سے نتائج ملے جلے حاصل ہوئے ہیں، جن میں ان 2 کے درمیان تعلق براہِ راست اور مسلمہ نظر نہیں آتا۔ کمپنی نے نیو یارک ٹائمز پر ’سنسنی خیز نہیں سائنس‘ کے ٹائٹل کے ساتھ جو اشتہار چھپوایا تھا اس میں بتایا گیا کہ، ’اگر ہمیں تھوڑا سا بھی یہ یقین ہوتا کہ ہمارا ٹالک محفوظ نہیں، تو یہ ہمارے شیلفوں سے اٹھالیا گیا ہوتا۔‘

لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا مقدمات سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے کمپنی کو اس مشق سے کچھ کامیابی ملے گی بھی یا نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اگر کسی پراڈکٹ بالخصوص بچوں کے پراڈکٹ کے ساتھ کیسنر کو جوڑ کر کوئی افواہ بھی پھیلا دی جائے تو بھی زیادہ تر لوگ اس پراڈکٹ کو خریدنا بند کردیتے ہیں۔ سینٹ لوئس مقدمے کے بعد سے پورے امریکا میں کئی اضافی مقدمات بھی دائر کیے جاچکے ہیں۔ ان میں صرف کینسر کا شکار بننے والے افراد ہی نہیں بلکہ میزوتھیلیوما کے شکار افراد بھی شامل ہیں جن کے مطابق کیمیکل ذرات سانس کے ذریعے ان کے جسم میں داخل ہوئے اور ان کے پھیپھڑوں کے ٹشوز میں پھنس جانے کی وجہ سے انہیں یہ مرض لاحق ہوا۔

انفرادی مقدمات کے ساتھ، کلاس ایکشن مقدمات بھی ہیں جو ایسے درخواست گزاروں پر مشتمل ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصے تک بیبی پاؤڈر استعمال کیا اور اوریئن کینسر کا شکار ہوئے۔

پاؤڈر کے ممکنہ خطرات یہاں پاکستان میں بھی ویسے ہی ہیں جیسے باقی دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ہیں۔ اگر ہم سائنس کی طرف دیکھتے ہیں تو پھر یہ سچ ہے کہ ایسی تحاقیق موجود ہیں جو جانسن کے بیبی پاؤڈر کے ٹالک اور اوریئن کینسر اور پھیپھڑوں کے مختلف امراض کے درمیان کوئی تعلق ثابت نہیں کرتیں۔ مگر ساتھ ساتھ ایسی بھی تحقیقیں دستیاب ہیں جن کے مطابق ان 2 کے درمیان تعلق ہوسکتا ہے۔

پاکستانی صارف کو بھی دنیا کے کسی بھی ملک کے صارف کی طرح یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا یہ رسک اس نوعیت کا ہے یا نہیں کہ جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسے پراڈکٹس کا استعمال ہر صورت روک دینا چاہیے جن میں ممکنہ طور پر مضرِ صحت اجزا پر مشتمل ٹالک شامل ہے۔

جہاں صارفین کو خود سے اس رسک کا اندازہ لگانا لازمی ہے وہیں عوامی صحت کے متعلقہ اداروں کو امریکا میں چلنے والے مقدمات کے نتائج کا لازمی طور پر جائزہ لینا چاہیے اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا پاکستان میں بھی اس حوالے سے وارننگز دی جانی چاہئیں یا نہیں۔

آخر میں وکلا کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہیں ہمارے پاس تو ایسے متاثرہ افراد موجود نہیں جن کی جانب سے ابتدائی مقدمات اور نیو یارک ٹائمز کی تحقیق کے انکشاف کردہ ثبوت کی بنیاد پر کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہو۔

جدید زندگی چاہے امریکا میں ہو یا پاکستان میں، یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں، اس میں کیمیکل کا مسلسل اور حد سے زیادہ استعمال تو لازمی ہوتا ہے۔ ہم جو چیز کھاتے ہیں، جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، یا جو مصنوعات استعمال کرتے ہیں ان سب میں کیمیکل ہوتا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا کینسر سے جان چھڑانا بہت ہی مشکل ہے حتیٰ کہ ہمیں آگاہی بھی ہوتی ہے کہ ان میں سے چند چیزوں (مثلاً، سگریٹ کا دھواں، جو پاکستان کے تقریباً ہر دفتر اور ہر گھر میں موجود ہوتا ہے) میں کینسر کا باعث بننے والے جز شامل ہیں۔

جہاں تک بیبی پاؤڈر کی بات ہے تو زیادہ تر مائیں کسی قسم کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گی۔ اگر انہیں بیبی پاؤڈر استعمال ہی کرنا ہے تو وہ ٹالک والے پاؤڈر کے ساتھ رسک لینے کے بجائے کارن اسٹارچ سے بننے والے نئے ورژن کا بھی انتخاب کرسکتی ہیں۔

یہ مضمون 19 دسمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں