میرا دوست تو چلا گیا، مگر دوستی اب بھی برقرار ہے!
دنیا میں آنے کی ایک ترتیب بنائی گئی ہے، جیسے پہلے دادا، پھر والد اور پھر پوتے کی آمد ہوتی ہے، مگر دنیا سے جانے کی کوئی ترتیب موجود نہیں ہے۔ جس کی جتنی زندگی لکھی ہے وہ اتنی ہی جی کر اس جہاں فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔
یہ 3 جنوری سہ پہر کا وقت تھا اور میں نمازِ ظہر سے فارغ ہوکر جلدی جلدی صدر میں واقع سینٹرل بروکس چرچ پہنچا۔ یہ کسی بھی چرچ میں داخل ہونے کا میرا پہلا تجربہ تھا، لیکن سچ پوچھیے تو یہ انتہائی تکلیف دہ موقع تھا کیونکہ آج میرے دوست رومیل شیراز کینتھ کی آخری رسومات اسی چرچ میں ادا کی جانی تھی۔
رومیل سے میرا تعلق اپنے صحافتی سفر کے آغاز یعنی تقریباً 15 سال پہلے اس وقت قائم ہوا جب میں نے بزنس رپورٹنگ شروع کی۔ اس وقت رومیل ایک پبلک ریلیشن کمپنی سے وابستہ تھا اور میں آتش جوان صحافی ہوا کرتا تھا۔ رومیل کے بااخلاق رویے نے مجھے بہت متاثر کیا اور یہی وجہ تھی کہ بات شناسائی تک محدود نہیں رہی۔
اسی دوران ہم بزنس رپورٹر دوستوں کا ایک گروپ بن گیا، جس میں اظہر علی خان، عامر فاروق ، محمد یاسر، رضوان بھٹی اور میں شامل تھے، جبکہ رومیل ہمارے گروپ کے باہری دائرے کا ایک رکن تھا۔ رومیل کے اندر صحافتی اثرات بہ درجہ اتم پائے جاتے تھے۔ اسی لیے دوستوں کے مشورے اور تعاون سے رومیل نے انگریزی اخبار میں بطور ٹرینی رپورٹر سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور یوں اب رومیل ہمارے گروپ میں بطور صحافی شامل ہوگیا تھا۔ پھر ہم سب اکثر معیشت کے لحاظ سے مشکل ترین خبروں پر مل جل کر کام کرتے اور اپنے اپنے اداروں کے لیے خبریں مرتب کرتے تھے۔
اس دوران رومیل کے ساتھ بیرون ملک متعدد سفر کرنے کا موقع ملا۔ 2007ء میں ترکی اور 2009ء میں چین کا اکھٹے سفر کیا اور بتدریج یہ شناسائی دوستی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ رومیل نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر صحافت میں تیزی سے ترقی کی اور ایک چینل میں بطور پروگرام اینکر موقع میسر آگیا۔
یہ سال 2008ء کی بات ہے جب میری کراچی پریس کلب کی ممبر شپ ہوئی اور اس کے 2 سال بعد رومیل بھی اس کلب کا ممبر بن گیا۔ اور ہم دونوں پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کی سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ کے یو جے کا پہلا فیملی گالا ہم دوستوں نے رضوان بھٹی کی قیادت میں منعقد کیا۔ اس پروگرام کی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ بھی پروفیشنل انداز میں چلائی۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر ہمیں کے یو جے میں اہم عہدے دیے گئے۔
سال 2011ء میں، میں کے یو جے کا نائب صدر اور رومیل خزانچی کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ ہم دونوں نے کے یو جے کی فنڈنگ کو عطیات سے نکال کر کمرشل اسپانسر شپ پر منتقل کیا اور آج بھی کے یو جے کی آمدنی اسی بنیاد پر ہوتی ہے۔