پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار - 5
یہ اس فیچر کا پانچواں حصہ ہے- پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کریں-
سرفراز نواز :
فاسٹ بولر، سرفراز نواز نے اپنا کیریئر کا آغاز 1969 میں، 20 سال کی عمر میں کیا-
لیکن ان کی صحیح پہچان 1974 میں کرکٹر اور بقول ایک کپتان کے "ایک عاجز بچے" کی حیثیت سے ہوئی-
ایک جھگڑالو، انتہائی شرابی، اور کلبوں کے شوقین، 6.4 فٹ کے سرفراز، مشتاق اور عمران خان کے مطابق دہری شخصیت کا حامل تھے، جو کرکٹ کے میدان میں اپنی پوری جان لگا دیتے تھے لیکن ساتھ ہی انہیں انتظامیہ اور بورڈ کی طرف سے لگاۓ گۓ تمام قائدے قانون توڑ دینے کی بھی بیماری تھی-
مثال کے طور پر، مشتاق کو ہمیشہ یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی کہ کس طرح سرفراز باقائدگی سے ٹیم پر لگاۓ گۓ کرفیو کے باوجود ہوٹل سے نکل جاتے اور کلبوں میں رات بھر شراب اور عورتوں کے ساتھ گل چھڑے اڑاتے اور پھر صبح گراؤنڈ میں پنہچنے والے سب سے پہلے شخص بھی وہی ہوتے-
ایک اور سابقہ کپتان، انتخاب عالم کا کہنا تھا کہ سرفراز نواز نے ہی عمران خان کو 1974 میں لندن کی نائٹ لائف کی رنگینیوں سے متعارف کر وایا تھا- اس چیز سے عمران خان کے کزن ماجد خان کافی فکرمند ہوئے-
نواز کو (میانداد کے ساتھ) پاکستانی کرکٹ میں پہلی بار آسٹریلین 'سلیجنگ' تکنیک اپنانے کا سہرا جاتا ہے، جس میں بولر/فیلڈر بیٹس مین کو پریشان کرنے کے لئے طنزیہ اور توہین آمیز کلمات ادا کرتے ہیں-
مشتاق اور عمران بتاتے ہیں کہ کس طرح نواز اور میانداد 1976 اور 1979 کے درمیان میدان کی دہشت بن گۓ تھے-
سرفراز، پنجابی میں آسٹریلین کے ساتھ بد کلامی تو کرتے ہی تھے لیکن انکا اصل نشانہ انڈیا کے بہترین اوپنر، سنیل گواسکر تھے جو 1978 میں انڈیا کے پاکستان دورے کے دوران بار بار پاکستانی کپتان مشتاق کے پاس آتے اور انہیں سرفراز کو قابو میں رکھنے کو کہتے-
نواز، ذولفقار علی بھٹو کا بہت بڑا مداح تھے چناچہ جب ضیاء الحق نے جولائی 1977 میں، ایک فوجی کاروائی میں بھٹو کا تختہ الٹا تو نواز بری طرح چڑ گئے- دسمبر 1977، میں مہمان ٹیم انگلینڈ کے خلاف ایک میچ کے دوران، ایک ٹی وی کیمرے نے حادثاتی طور پر نواز کو باؤنڈری وال پر اپنے ایک ساتھی سے پنجابی میں جنرل ضیاء الحق کے بارے میں نازیبا کلمات بولتے ہوے کیپچ کر لیا-
کیمرا جھٹکے کے ساتھ، جیسے گھبراہٹ میں دوسری طرف مڑ گیا، اور مائکرو. فون بند کر دیا گیا-