یہ ایک بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ ’سی ایم اے سی‘ نجی شعبے کو شہر کی ذمہ داری لینے، اسپانسر منصوبوں اور شہر کی تزین و آرائش مہم کی ترغیب دینے میں کامیاب رہی۔ ان نجی شعبوں اور ان کے کنسلٹنٹ کی جانب سے پیش کردہ متعدد ڈیزائنز اور ماڈلز کو سی ایم اے سی کے اجلاسوں میں زیر بحث لایا گیا اور ان کی منظوری بھی دی گئی۔
جبکہ فُٹ پاتھ سے سمت کی نشاندہی کرتے بورڈز کو ہٹانے، درخت پر رنگ کرنے پر پابندی، شجر کاری اور سبزہ زاری، اور تعمیراتی ورثے یعنی قدیم عمارتوں کو لائٹوں سے روشن کرنے جیسے اقدامات بھی اٹھائے گئے تھے۔
بلاشبہ جن افسران کو ’سی ایم اے سی‘ کے فیصلوں پر عمل کروانا تھا ان سے رضامندانہ مدد اور تعاون حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔
چلیے ماضی سے سیدھا حال کی طرف آتے ہیں۔ اب جب 2018ء میں بل بورڈز کو ہٹایا جا رہا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کراچی ایک بار پھر سانس لینے لگا ہے۔ آج آپ درختوں اور عمارتوں کے چہرے اور چند بچی کچھی برطانوی دور کی عمارتوں پر موجود ڈیزائن نقش و نگار کی خوبصورتی دیکھ سکتے ہیں۔
جمالیاتی قدر و قیمت والی چند دیگر نشانیاں بھی یہاں وہاں نظر آجاتی ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کا ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے اور وہ ہے ’دیواروں‘ پر بڑے بڑے اشتہارات۔
مسمار شدہ غیر قانونی دکانوں اور دیگر تجاوزات کو دیکھنے کے لیے جب شہر کا چکر لگایا تو ان مناظر کو دیکھ کر اداسی ہوئی، کہیں سڑکیں ملبے کی وجہ سے بند پڑی تھیں، کہیں ٹوٹی کھڑکیاں تو کہیں دروازے تھے، غیر محفوظ انداز میں بجلی اور ٹیلی فون کی تاریں لٹک رہی تھیں، لیک ہوتے پائپ تھے، تباہ شدہ عمارتوں کے بیرونی حصے نظر آئے، جبکہ وہاں کے مکینوں کے چہروں پر لاچاری صاف صاف دکھائی دے رہی تھی۔
یہ سب دیکھ کر مجھے 1993ء کے وہ دن یاد آگئے جب شہری اداروں کی جانب سے کیے تزین و آرائشی کے کام کی نگرانی کے لیے شہریوں پر مشتمل ایستھیٹک کمیٹی کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔
چوتھائی صدی کے بعد ایسی کمیٹی کی ضرورت آج بھی برقرار ہے۔
نہ کسی پارک میں نہ ہی شہر میں
کوئی یادگار نہیں ملے گی کمیٹی کی یاد میں
— وکٹوریہ پسٹرنیک
لکھاری ایک کچے فوٹوگرافر اور گائگ ہیں، انہوں نے استاد ولایت علی خان سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔
یہ مضمون ڈان کے ایئوس میگزین میں 20 جنوری 2019ء کو شائع ہوا۔