جب پانامہ لیکس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف پٹیشن منظور کرلی تو انہیں اس پر بڑی حیرانی ہوئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وکلا تحریک کے لیے پیش کی گئی اپنی حمایت، مشرف کی جانب سے برطرف کیے جانے والے ججز کے کیس کو حل کرنے میں سستی دکھانے پر پیپلزپارٹی سے اتحاد ختم کرنے اور ججز بحالی کے سلسلے میں 2009ء کے لانگ مارچ میں اپنے کردار کی وجہ سے ایسے فیصلے کا خیال دل و دماغ سے نکال چکے تھے۔ لیکن جیسے ہی مقدمے کا آغا ہوا ویسے ہی آگے کی ساری صورتحال واضح ہوگئی۔
نواز شریف کے اقتدار میں ابتدائی دنوں کے دوران دانشور طبقہ ان کی یاداشت یا پھر ان کی توجہ کی کمی کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ جب وہ ملک بدر تھے، تب کئی لوگوں نے سوچا کہ آیا وہ کوئی سبق سیکھ بھی رہے ہیں یا نہیں۔
جی ہاں وہ سیکھ رہے تھے۔ اس کا پہلا اشارہ اس وقت نظر آیا جب انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، پاکستان میں جمہوریت کے تحفظ اور فروغ کے حوالے سے یہ ایک بہت ہی اہم معاہدہ تھا۔ جس کے بعد ان کی جماعت نے 18ویں ترمیم کے مسودے کو مرتب اور منظور کرنے میں مدد فراہم کی، بالخصوص اس لیے کہ اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ آئین میں سے فوجی حکومتوں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کی جانب سے شامل کردہ بے قاعدگیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔
تاہم انہوں نے ماضی کی چند تند تیز خاصیتوں کا بھی مظاہرہ کیا۔ 2008ء میں حکمران اتحاد سے علیحدہ ہونے کے چند ماہ بعد انہوں نے ججز بحالی کے سلسلے میں اپنے لانگ مارچ کے ذریعے ایک منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کے ایک اہم اصول کو ترک کردیا۔ آگے چل کر انہوں نے عدلیہ اور ججز کے ذریعے پیپلزپارٹی کی انتظامیہ کے اختیارات اور قانونی حیثیت کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی۔
تاہم بطورِ وزیرِاعظم اپنی تیسرے دورہ حکومت میں نواز شریف نے ایک بلوچ اکثریتی جماعت، نیشنل پارٹی کو بلوچستان میں حکومت قائم کرنے کا موقع دے کر اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک پاکستان کی حکومت میں رکاوٹ نہ بن کر اچھی خاصی سیاسی فراست کا مظاہرہ کیا۔ تاہم اپنی ہی پارٹی کی تنظیم سازی میں عدم دلچسپی اورپارلیمنٹ کو مستحکم بنانے میں ناکامی نے انہیں مشکل حالات سے دوچار کردیا۔
2017 میں جب ان کا زوال ناگزیر نظر آیا تو ان کے کیمپ نے ان کی اس حالت کا ذمہ دار ان کی ہندوستان کے ساتھ پُرامن ہمسایہ تعلقات کی خواہش کو ٹھہرایا۔
اگر یہ کہانی سچ ہے تو یہ سوچ دماغ میں آتی ہے کہ تاریخ انہیں کس نظر سے دیکھے گی۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے جنوری 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔