Dawnnews Television Logo

نواز شریف کے خلاف مقدمات کی مکمل کہانی

اہم بات یہ ہے کہ استغاثہ کو صرف ایک شخص جج محمد بشیر کو قائل کرنے کی ضرورت تھی، اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہا۔
اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2018 05:25pm

6 جولائی 2018 کو صبح کے ساڑھے 9 ہی بجے ہیں مگر درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے۔ اس شدید گرمی سے پناہ فراہم کرنے کے لیے نہ ہی بادل ہیں اور نہ ہی ہوا چل رہی ہے۔

نیلی شرٹس میں ملبوس کئی پولیس اہلکار ایک ایسے سڑک پر پے در پے 4 اسٹیل بیریئرز پر پہرہ دے رہے ہیں جو اسلام آباد کے سیکٹر جی 11 میں فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی جانب جاتا ہے۔ یہ علاقہ ضابطہءِ فوجداری کی 4 یا اس سے زائد لوگوں کے اجتماع کو ممنوع کرنے والی شق 144 کے تحت عوام کے لیے بند ہے۔ یہاں بیریئرز کے پاس مسلم لیگ (ن) کے کوئی آدھا درجن کارکن بے دلی سے نعرے بلند کر رہے ہیں۔

جوڈیشل کمپلیکس کے اندر کوئی 100 کے قریب صحافی عمارت کے تیزی سے سکڑتے ہوئے سائے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ عدالتی کمروں کی جانب جانے والے بند دروازے تک جاتا ہے اور اندر جانے کے ناکام مذاکرات کے بعد واپس آجاتا ہے۔

اندر برطرف وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے خلاف ایک احتسابی مقدمے کے فیصلے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ان پر مشکوک دولت کے ذریعے لندن میں 4 فلیٹس خریدنے کا مقدمہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید آصف سعید کرمانی اور اسی جماعت کے سابق وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری بھی دروازے کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری کے طور پر کچھ عرصہ پہلے تک کرمانی ہی کی اجازت سے کوئی اندر آ سکتا تھا۔ آج وہ بھی اندر جانے کے منتظر لوگوں کے مجمعے کا حصہ ہیں۔

10 بجے دروازہ کھلتا ہے اور لوگوں کا ایک گروہ باہر آ کر اعلان کرتا ہے کہ وکیلِ دفاع خواجہ حارث نے فیصلے کو ایک ہفتے تک ملتوی کرنے کی درخواست دی ہے تاکہ ان کے مؤکل نواز شریف فیصلہ خود سن سکیں۔ ایک گھنٹے بعد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اس درخواست کو مسترد کر دیتے ہیں۔

فیصلہ جسے ساڑھے 12 بجے سنایا جانا تھا، ملتوی کرکے ڈھائی بجے تک مؤخر کر دیا گیا، پھر ساڑھے 3 بجے تک اور پھر ساڑھے 4 بجے تک۔ کمپلیکس کے باہر تعینات کوئی دو درجن رینجرز اہلکاروں پر بھی اب تھکاوٹ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ وہ اب بار بار اپنے پیر بدل رہے ہیں اور انہوں نے اپنی بندوقوں کی نالیاں نیچے کر لی ہیں۔

صحافیوں کو اندر موجود صحافیوں سے باتھ روم کی ایک کھڑکی کے ذریعے خبریں مل رہی ہیں۔ تاخیر کے متعلق کافی مزاحیہ اندازے لگائے جا رہے ہیں جن میں سماجی طور پر غیر موزوں سے لے کر عدالت کی توہین کے معیار پر پورا اتر سکنے والے جملے بھی شامل ہیں۔ نواز شریف مجرم پائے جائیں گے یہ نتیجہ تو کافی پہلے ہی اخذ کر لیا گیا تھا مگر اس وقت سب کو انتظار یہ ہے کہ انہیں کتنی سزا دی جا رہی ہے۔

اور پھر دروازہ کھلتا ہے اور کافی سارے لوگ جذباتی انداز میں چلّاتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ اس شور ہنگامے میں صرف کچھ ٹکڑے ہی سمجھ آتے ہیں: ’نواز 10 سال، مریم 7 سال، صفدر 1 سال، 1 ملین پاؤنڈ [اسٹرلنگ] جرمانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ضبطگی۔‘


نواز شریف سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی عمارت سے بخوبی واقف ہیں۔ 13 ستمبر 2017 سے 6 جولائی 2018 تک 78 صبحیں ایسی رہی ہیں جب وہ اپنی سیاہ لگژری گاڑی میں اس کا گیٹ عبور کرکے اندر داخل ہوئے ہیں۔ ان کی گاڑی کا بونٹ اور چھت ہمیشہ چیک پوائنٹ کے باہر تعینات درجن کے قریب حامیوں کی جانب سے درست نشانے کے ساتھ پھینکی گئی پھولوں کی پتیوں سے لدی ہوئی ہوتی تھی۔

وہ ہمیشہ وقت پر آتے تھے، کبھی کبھی تو وقت سے بھی پہلے۔ ان کی گاڑی نظر آتے ہی سیکیورٹی اہلکار الرٹ ہوجاتے اور باڈی گارڈز کا ایک حلقہ انہیں، مریم اور صفدر کو لیگی کارکنوں اور پریس کے جمگھٹے سے نکال کر کچھ سیڑھیاں اوپر کمپلیکس کے دروازے تک پہنچاتا۔

کمپلیکس کے اندر موجود کورٹ روم نمبر 1 میں وہ شان و شوکت نہیں جو سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 کی ہے۔ بینچوں اور کرسیوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا مستطیل کمرہ صرف تقریباً 40 لوگوں کے لیے ہے جو بیچ کی راہداری کے دونوں اطراف لگی ہوئی ہیں۔ نواز شریف اور مریم ہمیشہ اگلی صف میں 2 نشستوں پر بیٹھا کرتے۔

جس دن نواز شریف کو پیش ہونا ہوتا، اس دن پرویز رشید، دانیال عزیز، مریم اورنگزیب اور راجہ ظفر الحق سمیت کئی دیگر سینئر لیگی رہنماؤں کا ان کے ساتھ نظر آنا معمول کی بات تھی۔ ان میں سے کچھ نواز شریف سے پہلے ہی پہنچ کر سیڑھیوں پر ان کا انتظار کر رہے ہوتے، جبکہ دیگر سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں آتے جاتے رہتے۔

کبھی نواز شریف جج کی آمد کا انتظار کرتے وقت اخبار پڑھتے جبکہ مریم اپنی گلابی رنگ کی ڈیجیٹل تسبیح پر دعائیں پڑھ رہی ہوتیں، اور یہ کام ان کی ہم نام اور ساتھی مریم اورنگزیب بڑی فرض شناسی کے ساتھ دہراتیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی شخص نواز شریف کے پاس آتا، ان سے ہاتھ ملاتا، حمایت کے دعوے کرتا؛ مریم کبھی کبھی قانونی معاملات یا پھر تازہ ترین ٹوئٹر ٹرینڈ کے حوالے سے اپنے قریبی ساتھیوں سے گفتگو کرتیں۔ صفدر اس مقدمے میں فریق ہونے کے باوجود ٹرائل سے سب سے زیادہ عدم دلچسپی رکھنے والے تھے اور وہ اپنا وقت پچھلی نشستوں پر یا پھر کمرہ عدالت کے باہر لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گزارتے۔

نواز شریف اور مریم کی نشستوں سے کچھ آگے جج کی اونچی میز کے سامنے خواجہ حارث کی سربراہی میں ان کی قانونی ٹیم اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکلاء بیٹھا کرتے۔

حارث کے ساتھ مریم کے وکیل امجد پرویز موجود ہوتے جنہیں وائٹ کالر جرائم کے مشہور مقدمات میں دولتمندوں کے دفاع کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کے کلائنٹس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما فاروق ستار اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے چوہدری مونس الٰہی شامل ہیں جو کہ اب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔

نواز شریف 15 جون 2017 کو اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے لیے مختص کیے گئے احاطے کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار
نواز شریف 15 جون 2017 کو اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے لیے مختص کیے گئے احاطے کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار

نیب کی استغاثہ ٹیم کی سربراہی سردار مظفر عباسی کر رہے ہوتے جو کہ بیورو کے ساتھ 2014 سے ہیں اور سندھ کے سابق وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن اور سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف مقدمات کا حصہ رہے ہیں۔

اور اس کمرہ عدالت کی سربراہی عینک پہنے ہوئے محمد بشیر کر رہے ہوتے جو صرف پورے کمرے سے تقریباً ایک فٹ اوپر موجود سبز کرسی پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے نمایاں نظر آتے۔ زیادہ تر وقت وہ ناقابلِ سماعت آواز میں بولتے اور کافی حیران نظر آتے۔ کبھی کبھی وہ خود کو پیش کی گئی دستاویزات پر سرسری نظر ڈالتے اور ٹرائل پر زیادہ اثرانداز ہوئے بغیر اسے خود بخود آگے بڑھنے دیتے۔

جج کا رویہ عمومی طور پر کافی دوستانہ ہوتا۔ شاذ و نادر ہی وہ کبھی غصے میں آتے، جیسا کہ تب ہوا جب سردار مظفر عباسی نے بلند آواز اور بے رحمانہ انداز کے ساتھ امجد پرویز کی ایک گواہ کے ساتھ جرح میں مداخلت کی۔ بشیر اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے، اعلان کیا کہ وہ ایسے رویوں کے درمیان کام نہیں کریں گے اور کمرہ عدالت سے تیزی سے باہر نکل گئے۔

بشیر جو کہ احتساب عدالت کے سینئر جج ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بھی سن چکے ہیں۔ ان کے خلاف نواز شریف پر فی الوقت موجود مقدمات سے 2 گنا زیادہ مقدمات تھے مگر ایک مقدمے کو چھوڑ کر باقی سب میں بشیر نے ضابطہءِ فوجداری کی شق 265 (کے) کے تحت ملزم کے خلاف ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بناء پر آصف علی زرداری کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔


نواز شریف اور مریم لندن کے پوش علاقے مے فیئر میں انہی اپارٹمنٹس میں فیصلہ سنتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں سزا ہوئی ہے۔ کچھ دیر بعد وہ اسی جگہ پر ایک پریس کانفرنس کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جب وہ فینسی فرنیچر والے ایک بڑے کمرے میں لاؤنج صوفے پر بیٹھتے ہیں تو ان کے وفادار اور ملازم آس پاس نظر آتے ہیں۔ صحافیوں کا ایک گروہ جس میں زیادہ تر پاکستانی صحافی ہیں، دلچسپی سے ان کی گفتگو سن رہے ہیں۔

نواز شریف صحافیوں کے سوالات لینے سے قبل ایک تحریری بیان پڑھتے ہیں جبکہ مریم ان کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے مسکراتی رہتی ہیں۔ وہ اگست 2017 سے لندن کے ایک ہسپتال میں کینسر سے لڑ رہی اپنی اہلیہ کلثوم کی خراب صحت اور وینٹیلیٹر پر ہونے کے باوجود پاکستان واپس لوٹنے کے اپنے ارادے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ مریم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے غصے سے پوچھتے ہیں، "اس لڑکی نے ایسا کیا کیا ہے جو اسے 7 سال قید کی سزا دے دی گئی ہے؟ ہمیں اس لیے جیل میں ڈالا جائے گا کیوں کہ ہم ان چیزوں کے بارے میں کھلے عام بات کرتے ہیں جو کہ پاکستان میں نہیں ہونی چاہیئں؟"

صفدر اپنے آبائی علاقے مانسہرہ میں فیصلہ سنتے ہیں جہاں وہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ خود کو گرفتار کرنے کے لیے آنے والی پولیس ٹیموں کو کامیابی سے چکمہ دے کر نکل جاتے ہیں اور 2 دن بعد راولپنڈی میں اپنی سزا کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مجمعے میں منظرِ عام پر آتے ہیں۔ حکام سے تھوڑی دیر آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد بالآخر انہیں گرفتار کرکے اسی شہر میں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا جاتا ہے۔

فیصلہ سنائے جانے کے ایک ہفتے بعد نواز شریف اور مریم سینئر رپورٹرز، ٹاک شو میزبانوں اور کالم نگاروں پر مشتمل صحافیوں کے ایک بڑے سے گروہ کے ساتھ ابو ظہبی ایئرپورٹ سے لاہور آتے ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ان کے بڑے بھائی اور بھتیجی کو ایئرپورٹ پر وصول کرنے کے لیے حامیوں کو ابھارا ہے۔ حکومت کے منصوبے دوسرے ہیں۔ وہ لاہور اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں میں مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان کو گرفتار کر چکی ہے جبکہ ایئرپورٹ جانے والے راستوں پر سیکیورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔ حکومت نے نواز شریف اور مریم کو لینڈ کرتے ہی گرفتار کرنے اور ایک اور طیارے میں اسلام آباد منتقل کر دینے کی تیاریاں بھی کر رکھی ہیں۔

شہباز شریف ایک کافی چھوٹے سے مجمعے کے ساتھ وسطی لاہور میں کئی گھنٹوں کے لیے پھنسے رہتے ہیں جبکہ نواز شریف اور مریم اڈیالہ جیل میں صفدر کے پاس جا پہنچتے ہیں۔ اس حوالے سے شروع میں تھوڑی کنفیوژن ضرور رہی کہ آیا انہیں اٹک قلعے کی خصوصی جیل میں رکھا جائے گا، اسلام آباد سے تھوڑا باہر سہالہ پولیس ریسٹ ہاؤس میں یا پھر اڈیالہ جیل کے اندر۔

اس دوران خواجہ حارث اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے فیصلے کو چیلنج کرتے ہیں اور اپیل پر فیصلہ ہونے تک سزا کی معطلی کی درخواست کرتے ہیں۔ سماعتیں عام انتخابات کی وجہ سے کچھ عرصہ مؤخر ہوجاتی ہیں مگر انہیں کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور مل جاتا ہے: یعنی محمد بشیر، جنہوں نے نواز شریف کو سزا سنائی تھی، اب وہ نواز شریف کے خلاف 2 دیگر مقدمات نہیں سنیں گے۔ خواجہ حارث کی دلیل ہے کہ چوں کہ باقی مقدمات میں بھی گواہان اور ثبوت تقریباً ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جیسے ہی ہیں، اس لیے جج محمد بشیر کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے کیوں کہ ان کا ذہن پہلے ہی نواز شریف کو قصوروار مان چکا ہے۔

پس منظر میں جسے نقصان پہنچ رہا ہے وہ نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔ اس کے کئی اہم رہنما قانونی کارروائیوں اور عدالتی سزاؤں کا سامنا کر رہے ہیں: سابق وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار انگلینڈ میں اپنا قیام غیر معینہ مدت کے لیے طویل کر دیتے ہیں تاکہ انہیں منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پیش نہ ہونا پڑے جس مقدمے میں نواز شریف اور ان کا خاندان بھی شامل ہیں؛ 2 سابق وفاقی وزراء دانیال عزیز اور طلال طوہدری کو توہینِ عدالت کی سزا دی گئی ہے؛ سابق رکنِ پارلیمنٹ حنیف عباسی کو ممنوعہ دوا ایفیڈرین کے لین دین کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے؛ پنجاب کے سابق وزیر راجہ قمر الاسلام کو کرپشن کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سابق وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی ابتدائی طور پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا مگر پھر اپیل کے بعد مقابلے کی اجازت دے دی گئی۔

ان تمام پیش رفتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سابق اراکینِ پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کر چکی ہے۔ انتخابات کے دن پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑے مارجن سے شکست دے دیتی ہے۔

سزا یافتہ سابق وزیرِ اعظم کو ہمدردی کا ووٹ نہیں مل پاتا۔ ان کی جماعت کو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 151 نشستوں کے مقابلے میں صرف 81 نشستیں ہی مل پاتی ہیں۔ یہاں تک کہ کئی دہائیوں سے اس کے گڑھ کی حیثیت رکھنے والے پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) 159 نشستیں حاصل کرتی ہے جبکہ پی ٹی آئی 175 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی چوٹی کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، طلال چوہدری اور دیگران کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ گزشتہ جولائی تک قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے سابق وزیرِ اعظم، ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبوں میں گہری جڑیں رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کیسے جیل میں پہنچ گئے اور ان کی پارٹی بکھر کر رہ گئی؟

کئی لوگ نواز شریف کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب تعلقات کو اس سب کی وجہ قرار دیتے ہوئے الزام دیتے ہیں کہ یہ زوال شروع سے آخر تک انجینیئرڈ تھا۔ ظاہر ہے کہ فوج ان کی برطرفی اور قید میں کسی قسم کے کردار سے انکار کرتی ہے۔

شہباز شریف 13 جولائی 2018 کو نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے کے لیے کارکنوں کے ساتھ لاہور ایئرپورٹ جا رہے ہیں۔ — فوٹو مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار
شہباز شریف 13 جولائی 2018 کو نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے کے لیے کارکنوں کے ساتھ لاہور ایئرپورٹ جا رہے ہیں۔ — فوٹو مرتضیٰ علی، وائٹ اسٹار

ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مسلح افواج کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں، مگر یہ تعلقات خاص طور پر تب بگاڑ کا شکار ہوئے جب دسمبر 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ کچھ مواقع پر تو کچھ تبصرہ نگاروں نے جمہوریت کے خاتمے کی ہی گھنٹیاں بجا ڈالی، مگر وہ غلط ثابت ہوئے۔ مگر تعلقاتِ عامہ کے ایک مؤثر ادارے کی موجودگی اور کئی تردیدی بیانات کے باوجود فوج کے لیے سویلین دائرہ اختیار میں مداخلت بشمول نواز شریف کے ٹرائل اور سزا میں ملوث ہونے کے عوامی تاثر کو ختم کرنا آسان نہیں رہا ہے۔

مگر یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔


جب پاناما کی ایک لاء فرم موزیک فونسیکا اینڈ کمپنی لمیٹڈ سے لیک ہونے والے پیپرز 3 اپریل 2016 کو عوام کے سامنے آئے تو نواز شریف نے شاید یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہ ان کی سیاسی قسمت کو بدل کر رکھ دیں گے۔ تقریباً 1 کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مبنی لیکس میں دنیا بھر بشمول پاکستان کے دولتمندوں اور طاقتوروں کی جانب سے 2 لاکھ 14 ہزار 488 آف شور کمپنیوں کے ذریعے چھپائے گئے اثاثوں کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے گئے تھے۔

ویسے تو پاناما پیپرز میں نواز شریف کا براہِ راست نام نہیں آیا تھا مگر پھر ان کے 3 بچوں کو دنیا کے مختلف حصوں میں موجود کئی کمپنیوں کا مالک یا/اور مستفید دکھایا گیا تھا۔ سب سے اہم وہ دستاویزات تھیں جس میں ایون فیلڈ میں ان کے خاندانی اپارٹمنٹس، جو 1993 سے متنازع ہیں، کو دو آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول سے منسلک دکھایا گیا تھا۔ ان کمپنیوں کے مالک ان کے بیٹے حسین نواز اور حسن نواز تھے، جبکہ مریم کے بھی ان کمپنیوں سے منسلک ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

پاکستانی قانون کے تحت کسی پاکستانی کا آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر کمپنیوں کو اکثر غیر قانونی طور پر کمائی گئی دولت اور غیر قانونی کاروبار چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے مالکان کی بدعنوانی سے حاصل کی گئی دولت کو پاکستانی حکام کی نظروں سے دور برٹش ورجن آئلینڈز اور بہاماس جیسے ممالک میں مکمل طور پر خفیہ رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

لیکس کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں پاناما پیپرز پر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے تجویز دی کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے مگر حکومت نے ایسی کسی بھی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کی تجویز کردہ شرائط (ٹرمز آف ریفرینس) قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اس ڈیڈ لاک کے دوران نواز شریف نے قومی اسمبلی میں ایک طویل تقریر کی اور سرکاری ٹی وی سے عوام سے خطاب بھی کیا۔ 16 مئی 2016 کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ: "میرے ساتھیوں نے اصرار کیا ہے کہ چوں کہ میرا نام پاناما پیپرز میں کہیں بھی موجود نہیں ہے اس لیے مجھے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی ضرورت نہیں، مگر میں پھر بھی ایسا کر رہا ہوں۔"

حکومتی وزیروں اور ان کی جماعت کی صفوں کا ماننا تھا کہ پاناما پیپرز چائے کی پیالی کا طوفان ہیں جو کہ جلد یا بدیر بیٹھ جائے گا۔ انہوں نے عدالتوں کے اس معاملے کا نوٹس لینے سے قبل اس معاملے کی پارلیمنٹ اور دیگر وفاقی اداروں سے تحقیقات کروانے کے لیے پوری کوششیں کیں۔

یہ نواز شریف تھے جو کہ خود پہلی مرتبہ عدالت گئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ وہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے۔ شاید جذباتی اور تقسیم کی شکار سیاست سے دور رہنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے یہ درخواست مسترد کردی اور وہ قانونی وجوہات گنوائیں جس کی وجہ سے ایسا کمیشن غیر مؤثر ثابت ہوتا۔ اس کے علاوہ عدالت نے اس معاملے پر از خود نوٹس لینے کی اپوزیشن رہنماؤں بشمول عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی کئی درخواستوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

عمران خان کے لیے یہ سب کچھ خدا کا تحفہ تھا، ایک ایسی سیاسی اور قانونی جنگ کا آغاز جس کا مقابلہ وہ ثبوتوں کی اس بھول بھلیاں سے کرتے جس نے ذہین ترین قانونی دماغوں کو ہکا بکا چھوڑ دیا تھا۔ جب انہوں نے 2014 کے دھرنے کی طرح اسلام آباد کو دوبارہ جام کر دینے کی دھمکی دی تو آخر کار سپریم کورٹ نے اکتوبر 2016 کے اواخر میں پاناما پیپرز پر ان کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔

6 ماہ طویل سماعتوں کے بعد 5 میں سے 2 جج صاحبان نے نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا۔ دیگر 3 جج صاحبان نے اس مسئلے کی مزید تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کی سفارش کی۔ 6 ارکان پر مشتمل جے آئی ٹی کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو کرنی تھی اور کسی معلوم وجہ کے بغیر اس میں 2 انٹیلیجینس اداروں ملٹری انٹیلیجینس (ایم آئی) اور انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے ایک ایک رکن کو بھی شامل ہونا تھا۔

کم از کم ابتدائی طور پر تو نواز شریف کے حامی یہ سوچ کر خوش تھے کہ ان کے رہنما نے گولی کو چکمہ دے دیا ہے۔ مگر کچھ ماہ بعد ہی انہیں اندازہ ہونا تھا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر انہوں نے مٹھائیاں بانٹنے میں کافی جلدی کی تھی۔

ریاست کے تمام وسائل کی دستیابی رکھنے والے جے آئی ٹی اسلام آباد کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ملتی تاکہ خود کو دیا گیا ٹاسک 2 ماہ کی مقررہ مدت میں مکمل کر لے۔ اس نے سوالنامے تیار کیے اور ملزمان کو بھیجے؛ اس نے برٹش ورجن آئلینڈز اور دیگر ممالک کو باہمی قانونی تعاون کے لیے خطوط لکھے؛ اس کے علاوہ اس نے سفارتی طریقوں سے قطر کے سابق وزیرِ اعظم حماد بن جاسم بن جابر الثانی کو بھی درخواست کی کہ وہ اس خط کے مندرجات کی تصدیق کریں جو کہ انہوں نے مبینہ طور پر اس دولت کے بارے میں لکھا تھا جو ان کے والد نے نواز شریف کے والد سے 1980 کی دہائی میں بطور سرمایہ کاری وصول کی تھی۔

شریف خاندان کے کئی ارکان بشمول حسن، حسین، مریم، صفدر، نواز شریف، شہباز شریف، اور ان کے کزن طارق شفیع کے جے آئی ٹی نے مختلف سیشنز میں کئی گھنٹوں پر مشتمل لاتعداد انٹرویوز کیے۔ حسین کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی سے قبل ایک تنہا کرسی پر بیٹھے ہوئے لی گئی تصویر کے لیک ہونے پر میڈیا میں کافی طوفان مچا جس سے نواز شریف کے حامیوں کی نظروں میں یہ تاثر ابھرا کہ جے آئی ٹی کے ارکان ان کے خاندان کے ساتھ کتنا برا سلوک کر رہے تھے۔

تحقیقاتی ٹیم نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، انٹیلیجینس بیورو (آئی بی) اور ایف آئی اے سے بھی مدد مانگی۔ ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی کو بعد میں شریف خاندان کی زیرِ ملکیت کاروباروں سے متعلق ثبوتوں کے اکھٹا کرنے میں مداخلت کرنے پر گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے بعد انہیں ان کاروباروں سے متعلق دستاویزات میں ردوبدل کرنے پر مجرم قرار دیا گیا تھا۔

نواز شریف اور مریم نواز لندن میں 11 جولائی 2018 کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ — رائٹرز
نواز شریف اور مریم نواز لندن میں 11 جولائی 2018 کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ — رائٹرز

دیر سے ہی سہی مگر حکومت اور مسلم لیگ (ن) کو بالآخر یہ احساس ہوگیا کہ جے آئی ٹی جتنا گہرائی میں جائے گی، اتنا ہی نواز شریف کے لیے تحقیقات اور انکشافات کے سیاسی اور عدالتی نتائج سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔ ان کے حامیوں نے تحقیقاتی ٹیم کو ایک غیر جانبدار ٹیم کے بجائے ان کا دشمن قرار دینا شروع کر دیا۔ ایک مرحلہ تو ایسا آیا کہ وزیرِ اعظم کے سیکریٹریٹ نے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی گواہان کے فون ٹیپ کر رہی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس تمام تلخی کے دوران جے آئی ٹی نے بالآخر ڈیڈ لائن کے خاتمے کے چند دن بعد 10 جلدوں پر مشتمل اپنے تباہ کن انکشافات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ باوجود اس کے کہ اس کی پراسرار دسویں جلد اب بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر پوشیدہ رکھی گئی ہے، مگر پھر بھی عدالتی حلقوں میں کئی لوگوں نے اسے شاندار تحقیقاتی مثال قرار دیا ہے۔ مگر جے آئی ٹی کے مخالفین اسے غیر متاثر کن اور شریف خاندان پر حملہ قرار دیتے ہیں۔

رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت جھوٹا اور بددیانت قرار دیا۔ انہیں انتخابی نامزدگی فارمز میں متحدہ عرب امارات کا اپنا ورک پرمٹ ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارتِ عظمیٰ سے نااہل کر دیا گیا۔ انہوں نے وہ ورک پرمٹ اپنے بیٹے حسن کی کمپنی کیپٹل ایف زیڈ ای کے ملازم کی حیثیت سے حاصل کیا تھا۔

ان کے خلاف آئینی مقدمہ پورا ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اب ان کا بدعنوانی میں ملوث ہونے اور معلوم ذرائع آمدنی سے زائد اثاثوں کی موجودگی پر فوجداری قوانین کے تحت ٹرائل کیا جائے۔


8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر کے سامنے 3 ریفرینس فائل کیے۔ ان میں سے ایک مقدمہ العزیزیہ اسٹیل ملز کا تھا جو کہ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے 2001 میں سعودی عرب میں لگائی تھی جب کہ حسین اس کے منتظم تھے۔ شریف خاندان کے مطابق مل کے لیے جزوی طور پر پیسہ سعودی حکومت سے قرض کے ذریعے آیا، جبکہ سعودی حکومت نے ہی وہ جائیداد فراہم کی تھی جسے گروی رکھوا کر قرضہ حاصل کیا گیا۔

نیب کا کہنا تھا کہ دولت کہاں سے آئی، یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزات یا آڈٹ شدہ اکاؤنٹس موجود نہیں ہیں۔ اس کے بجائے نیب کا کہنا ہے کہ مل اس کالے دھن سے بنائی گئی جو کہ پاکستان سے لوٹ کر باہر لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس دولت کو سعودی عرب میں حسین کی قائم کردہ ایک اور کمپنی ہِل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے 'سفید' کیا گیا جس نے پاکستان میں نواز شریف اور مریم کو 2010 اور 2015 کے درمیان تقریباً ایک ارب روپے ناقابلِ ٹیکس "تحائف" کی صورت میں بھیجے۔

دوسرا ریفرینس ایک برطانوی کمپنی فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق ہے۔ یہ حسن نے 18 سال کی عمر میں قائم کی تھی اور یہ ان 10 کاروباروں میں سے ایک ہے جو کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنے زمانہءِ طالبِ علمی میں قائم کیے تھے۔ ان کاروباروں کی ملکیت میں کئی مہنگی جائیدادیں ہیں جن میں سے ایک ون ہائیڈ پارک پلیس بھی ہے جس کی قیمت 4 کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ اسٹرلنگ ہے۔

تیسرا ریفرینس ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق ہے۔

نواز شریف جولائی 2017 میں اسلام آباد میں پریس سے گفتگو کر رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار
نواز شریف جولائی 2017 میں اسلام آباد میں پریس سے گفتگو کر رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار

ان اپارٹمنٹس کی کہانی پاکستان اور محمد شریف سے شروع ہوتی ہے۔ لاہور کے کوٹ لکھپت علاقے میں اسٹیل پگھلانے کے ایک پلانٹ اتفاق فاؤنڈری سے دولت مند ہو جانے والے صنعتکار محمد شریف نے بتدریج اپنے بھائیوں کی شراکت داری سے اتفاق گروپ آپ کمپنیز کی بنیاد رکھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے فاؤنڈری کو 1972 میں قومی ملکیت میں لے لیا تو انہوں نے اپنی نظریں تیزی سے ترقی پاتی متحدہ عرب امارات کی ریاست پر جما لیں۔

انہوں نے 1974 میں بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی فنڈنگ سے دبئی میں گلف اسٹیل ملز قائم کیں اور اپنے بااعتماد بھتیجے طارق شفیع کو کاروبار میں 25 فیصد شیئرز دے کر اپنی جگہ نظم و نسق سنبھالنے کے لیے کہا۔ مل کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ 1978 تک محمد شریف نے 75 فیصد شیئرز الاحلی اسٹیل ملز کو 2 کروڑ 10 لاکھ درہم سے کچھ اوپر میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اپنے ذمے واجب الادا بینک قرضے اتار سکیں۔ 2 سال بعد انہوں نے باقی بچ گئے 25 فیصد شیئرز اسی خریدار کو 1 کروڑ 20 لاکھ درہم میں فروخت کر دیے۔

ایون فیلڈ مقدمے میں یہاں تک تو دفاع اور استغاثہ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ 1 کروڑ 20 لاکھ درہم کہاں استعمال ہوئے؟

دفاع کی کہانی کچھ یوں ہے: بینک کا قرضہ ادا ہوجانے کے بعد محمد شریف نے بچ جانے والی رقم سے اپنے پرانے دوستوں اور کاروباری شراکت داروں، قطر کے شاہی خاندان الثانی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کو پاناما پیپرز کی سماعتوں کے دوران بھیجے گئے 2 خطوط میں قطری شہزادے حماد بن جاسم الثانی نے بیان دیا کہ "انہیں سال 1980 میں بتایا گیا تھا کہ میاں محمد شریف نے قطر میں الثانی خاندان کے ریئل اسٹیٹ بزنس میں ایک مخصوص رقم کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ "اس وقت سمجھ گئے تھے کہ 1 کروڑ 20 لاکھ درہم کی رقم میاں شریف نے فراہم کی تھی اور یہ دبئی میں کاروبار کی فروخت سے حاصل ہوئی تھی۔"

خطوط میں یہ بھی تحریر ہے کہ محمد شریف نے اپنی زندگی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ "ریئل اسٹیٹ بزنس میں ان کی سرمایہ کاری اور نفعے کے بینیفشری ان کے پوتے حسین نواز شریف ہوں۔"

دوسری جانب استغاثہ اور جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ رقم کی الثانی خاندان کے کاروبار میں لگائے جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ گلف اسٹیل ملز پر بی سی سی آئی کا 2 کروڑ 70 لاکھ درہم قرض تھا جبکہ 80 لاکھ درہم دیگر یوٹیلیٹی سروسز (پانی، بجلی، گیس وغیرہ) کی جانب واجب الادا تھے۔ جب شیئرز کی پہلی فروخت کے بعد بینک کو 2 کروڑ 10 لاکھ درہم ادا کر دیے گئے، تب بھی مل دوسرے قرض خواہوں کے 1 کروڑ 40 لاکھ درہم کی مقروض تھی جب شیئرز کی دوسری فروخت ہوئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق طارق شفیع نے 1986 میں بی سی سی آئی میں اکاؤنٹ کھولا جو کہ صرف تب ہی ممکن تھا جب وہ پچھلے تمام واجبات ادا کر چکے ہوتے۔

دونوں مؤقف ناقابلِ تصدیق ہیں: بی سی سی آئی 1991 میں بند ہو گیا۔ اسے جنوبی امریکی منشیات فروش کارٹلز کا پیسہ سفید کرنے میں ملوث پایا گیا تھا جبکہ ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ مل نے اپنے ذمے واجب الادا بل کب ادا کیے، اگر کبھی کیے بھی تو۔

جے آئی ٹی اور نیب کے لیے منی ٹریل اس سے آگے نہیں جاتی۔ مگر دفاع کے لیے یہ منی ٹریل جاری رہتی ہے جس کے مطابق قطری خاندان کے کاروبار میں لگائی گئی رقم سے بالواسطہ طور پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے گئے، مگر اس پر بعد میں آتے ہیں۔

برطانیہ میں ہَر میجسٹیز لینڈ رجسٹری کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق نیلسن اور نیسکول نے سب سے پہلے 1990 کی دہائی کے وسط میں اپارٹمنٹس خریدے۔ چوں کہ دونوں کمپنیاں برطانیہ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں، اس لیے ان کے مالکان کو یہ دکھانے کے لیے کہ وہ بھی اپارٹمنٹس کے مالک ہیں، شیئر سرٹیفیکیٹس کی ضرورت تھی۔ ایک طویل عرصے تک برطانوی قانون کے مطابق ان سرٹیفیکیٹس پر کسی کا نام ہونا ضروری نہیں تھا۔ بیئرر چیک (کھلے چیک) کی طرح جس کسی کے پاس بھی سرٹیفیکیٹس ہوتے، وہی کمپنیوں اور نتیجتاً ان اپارٹمنٹس کا مالک ہوتا۔

دفاع کا دعویٰ ہے کہ یہ جائیدادیں 1993 سے 2006 کے درمیان قطری شاہی خاندان کے قبضے میں رہی ہیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان ان اپارٹمنٹس کو کرایہ اور مرمتی اخراجات ادا کرکے استعمال کرتا تھا مگر ان کے پاس اس کے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں کیوں کہ ان کے مطابق یہ محمد شریف اور شہزادہ حماد کے والد شیخ جاسم بن جابر الثانی کے درمیان ایک غیر رسمی معاہدہ تھا۔

شہزادہ حماد کے خطوط میں بھی یہی بیان ہے: دونوں خاندانوں کے درمیان لین دین روایتی طور پر نقد رقم میں ہوتا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دونوں آف شور کمپنیوں اور اپارٹمنٹس کے شیئر سرٹیفیکیٹس 2005 کے اواخر میں تقریباً 80 لاکھ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے تصفیے کے بعد حسین کے حوالے کر دیے گئے تھے۔ نیلسن اور نیسکول نے فوراً جائیداد کی ٹرسٹی شپ ایک اور آف شور کمپنی منروا ٹرسٹ اینڈ کارپوریٹ سروسز لمیٹڈ کو منتقل کر دی جو کہ مریم کی ملکیت تھی۔

شیئر سرٹیفیکیٹس پر نام نہ ہونے کی وجہ سے تب تک ان افراد کے نام جاننا ناممکن ہے جو کہ حسین کو منتقلی سے پہلے ان کے مالک تھے، جب تک کہ نیلسن اور نیسکول کو رجسٹر کرنے والے حکام ان ناموں کا انکشاف نہ کریں۔ برطانیہ میں پراپرٹی مالکان کو گمنامی کی اجازت دینے والی قانونی شق کو 2006 میں ختم کر دیا گیا تھا اور یہی وہ وقت ہے جب حسین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپارٹمنٹس حاصل کیے۔

استغاثہ کی کوشش تھی کہ وہ جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے گئے ان ثبوتوں کی بناء پر قطری شاہی خاندان کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے علیحدہ کر دے جو کہ اس نے شریف خاندان کی ملکیت حدیبیہ پیپر ملز کے قرض دیوالیہ پن کے متعلق لندن ہائی کورٹ میں چل رہے ایک مقدمے سے حاصل کیے تھے۔ یہ قرض 1995 میں التوفیق انویسٹمنٹ فنڈ نامی ایک انویسٹمنٹ کمپنی سے حاصل کیا گیا تھا۔ جب شریف خاندان یہ واپس کرنے میں ناکام رہا تو برطانوی حکام نے 4 ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے بارے میں خبرداری نوٹس جاری کر دیے۔ یہ صرف تب ہو سکتا تھا جب ان اپارٹمنٹس کو قرض حاصل کرنے کے لیے گارنٹی کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔ اور جے آئی ٹی کے مطابق اگر بعد میں یہ خبرداری نوٹس واپس لے لیے گئے تھے تو اس کا مطلب تھا کہ قرض ادا کر دیا گیا ہے۔ شریف خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ قرض بھی الثانی خاندان نے ادا کیا ہے مگر جے آئی ٹی اسے مسترد کرتے ہوئے دلیل دیتی ہے کہ شاہی خاندان کا حدیبیہ پیپر ملز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس مقدمے کی پیچیدہ نوعیت اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب ہر میجسٹیز لینڈ رجسٹری کی جانب سے اپارٹمنٹس کی ملکیت کے حوالے سے جاری کردہ دستاویزات کے دو سیٹس میں باریک سا فرق نظر آیا۔ وہ دستاویزات جو رجسٹری سے حاصل کی گئیں اور دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز مقدمے کی سماعت کے دوران جمع کروائی گئیں، ان کے مطابق نیسکول نے 1993 میں اپارٹمنٹ 17 اور 1996 میں 17 اے بالترتیب 5 لاکھ 85 ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ اور 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ میں خریدے۔ جبکہ نیلسن نے 1995 میں 16 اور 16 اے 10 لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ میں خریدے۔

نیب کی جانب سے باہمی قانونی معاونت کی درخواست کے ذریعے برطانیہ سے حاصل کی گئی اور احتساب عدالت میں جمع کروائی گئی ایسی ہی دستاویزات میں دونوں کمپنیوں کی جانب سے اپارٹمنٹس کے حصول کی تصدیق تو کی مگر ان دستاویزات میں ان جائیدادوں کی قیمت درج نہیں تھی۔

مقدمے سے قریبی طور پر وابستہ رہنے والے ذرائع کے مطابق وکلائے دفاع نے اپنے دلائل میں قیمتوں کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ وہ پاناما پیپرز کی سماعتوں میں پہلے ہی اپنا مقدمہ مضبوط کر چکے ہیں کہ اپارٹمنٹس نواز شریف کی ملکیت نہیں چنانچہ وہ اپنے بیانیے پر قائم رہے۔

نواز شریف بکتر بند گاڑی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت سے واپس جا رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار
نواز شریف بکتر بند گاڑی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت سے واپس جا رہے ہیں۔ — فوٹو محمد عاصم، وائٹ اسٹار

ذرائع کا کہنا ہے کہ استغاثہ نے بھی اپارٹمنٹس کی قیمت پر زیادہ زور اس لیے نہیں دیا کیوں کہ اگر یہ ثابت بھی ہوجاتا کہ اپارٹمنٹس نواز شریف کی ملکیت تھے تو بھی ان کے وکلاء کے لیے یہ ثابت کرنا نسبتاً آسان ہوتا کہ ان کے پاس اسے خریدنے کے لیے وسائل (خریداری کے وقت شرحِ مبادلہ کے حساب سے 8 کروڑ 90 لاکھ روپے) موجود تھے۔

نواز شریف کا اپارٹمنٹس سے تعلق ثابت کرنے والی کسی بھی دستاویز کی عدم موجودگی کی وجہ سے استغاثہ نے اپنا مقدمہ بنیادی طور پر 2012 کے خط پر رکھا جو کہ لیک شدہ پاناما پیپرز میں موجود تھا۔ برٹش ورجن آئلینڈز کی فنانشل انویسٹیگیٹو ایجنسی کے ڈائریکٹ ایرل جارج کے سوالات کے جواب میں موزیک فونسیکا اینڈ کمپنی لمیٹڈ کے لکھے ہوئے خط میں تحریر تھا کہ مریم نیسکول اور نیلسن کی مالک تھیں۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ موزیک فونسیکا کو ان فرمز سے منسلک کسی ٹرسٹی کی کوئی تفصیلات "موصول نہیں ہوئی تھیں۔" استغاثہ نے اسے یہ دعویٰ کرنے کے لیے ثبوت کے طور پر رکھا کہ مریم ٹرسٹی نہیں بلکہ ان دونوں کمپنیوں کی بینیفشل اونر (جائیداد کا وہ مالک جسے مخصوص حقوق حاصل ہوں مگر جائیداد کی ملکیت کسی اور شخص کے نام پر ہو) تھیں۔

جواب میں انہوں نے نیلسن/نیسکول اور منروا سروز کے درمیان ایک 2006 کا معاہدہ پیش کیا جس میں ان کے ٹرسٹی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔ صفدر اس دستاویز کے دستخط کنندہ تھے۔ مگر اس میں ایک واضح غلطی موجود تھی: کیلیبری فونٹ عوامی استعمال کے لیے 2007 سے پہلے دستیاب نہیں تھا۔ بھلے ہی مریم کے وکلاء یہ دعویٰ کرتے رہے کہ فونٹ کا تجرباتی ورژن انٹرنیٹ پر 2004 سے دستیاب تھا، مگر دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے والی لندن کی ایک کمپنی ریڈلے فارینسکس نے اس معاہدے کو جعلی قرار دے دیا۔

استغاثہ نے عدالت کو ایک برطانوی وکیل جیریمی فری مین کی جانب سے جے آئی ٹی سے رابطے کے بارے میں بھی بتایا جنہوں نے مبینہ طور پر معاہدے کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ یہ معاہدہ ان کے دفتر سے گزرا تھا مگر انہوں نے اسے ذاتی طور پر نہیں دیکھا تھا۔ جے آئی ٹی نے ان کے ردِ عمل سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ فری مین کی حسین، مریم اور خود فری مین کے جعل سازی کا ارتکاب کرنے کے اعتراف میں ہچکچاہٹ کا اشارہ تھا۔

مگر پھر بھی سوال اٹھتا ہے کہ اس سب میں نواز شریف کا کیا کردار ہے؟

بھلے ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ جوابدہ نمبر 1، یعنی نواز شریف، کی جانب حوالوں سے بھری ہوئی تھی، مگر پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ آفشور کمپنیوں اور اپارٹمنٹس کا کم از کم کاغذی طور پر نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ استغاثہ نے بالواسطہ تعلق قائم کرنے کی کوشش کی: یعنی انہوں نے حسین اور حسن کو دولت فراہم کی جو کہ اتنی دولت خود کمانے کے لیے اس وقت بہت چھوٹے تھے جب یہ جائیدادیں پہلی مرتبہ حاصل کی گئی تھیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ "جہاں تک قبضے کا تعلق ہے تو ان کا اپارٹمنٹس کا بلا شرکتِ غیرے استعمال انہیں ان اپارٹمنٹس کا واحد بینیفشری ثابت کرتا ہے"، ایک ایسا مفروضہ جو کہ ان اپارٹمنٹس آنے والے حقائق سے نابلد ترین مہمانوں کو بھی مجرم قرار دے دیتا۔


یہ واضح ہے کہ استغاثہ کا مقدمہ بڑی حد تک سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کی سماعتوں کے دوران جمع کروائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر قائم ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کو درحقیقت ایک آئینی مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا کہ آیا نواز شریف آئین کے تحت عوامی عہدہ رکھنے کے اہل ہیں یا نہیں، نہ کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنے جانے والے ایک فوجداری مقدمے میں ثبوت اکھٹا کرنے کے لیے۔

کراچی میں مقیم وکیل فیصل صدیقی کہتے ہیں کہ "نیب نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ درحقیقت ایک آزادانہ تحقیقات کیے بغیر ایک آزادانہ تحقیقات کا راستہ اختیار کرنا تھا۔ نیب کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کو صرف ایک ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے طور پر سامنے رکھ کر اپنا مقدمہ اس کے اوپر تیار کرنا چاہیے تھا۔"

ان کے تبصرے کی بنیاد اس حقیقت میں ہے کہ نیب نے ثبوتوں کی تصدیق کے لیے کچھ دیگر ممالک کو باہمی قانونی معاونت کی درخواستیں کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، جبکہ یہ ثبوت جے آئی ٹی پہلے ہی سامنے لے آئی تھی۔ اور چوں کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء استغاثہ کے مرکزی اور سب سے اہم (اسٹار) گواہ تھے، چنانچہ اس سے نیب کے اپنے تفتیش کاروں کی جانب سے زیادہ محنت کی عدم موجودگی کا بھی اشارہ ملتا ہے۔

ضیاء ایک ماہ میں کئی بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے مگر ان کے بیان میں شاید ہی کوئی نئی اور اہم معلومات سامنے آئیں۔ مگر عدالت میں ان کے کچھ بیانات نے تنازعات کو ضرور جنم دیا۔

اس کی ایک مثال ان کا اعتراف تھا کہ استغاثہ کی جانب سے اپارٹمنٹس خریدنے تک کی منی ٹریل کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا تھا وہ مفروضوں پر مبنی تھا۔ ان کا ایک اور اعتراف یہ تھا کہ نواز شریف کا اپارٹمنٹس سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں تھا اور یہ کہ ان اپارٹمنٹس کے اصلی اور بینیفیشل اونرز کا پتہ چلانا انتہائی مشکل کام تھا، جبکہ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی کی وجہ بننے والے ثبوت جے آئی ٹی میں شامل ایم آئی اور نیب کے افسران نے متحدہ عرب امارات سے ایک دن میں حاصل کیے تھے۔

شاید ان کا سب سے اہم انکشاف یہ تھا کہ جے آئی ٹی کی ایماء پر برطانیہ میں موجود اہم گواہوں سے خط و کتابت کرنے والے برطانوی وکیل اختر ریاض راجہ نے فارنسک رپورٹ پر تبصرہ لکھنے والے جس فارنسک ماہر کی خدمات حاصل کی تھیں، وہ واجد ضیاء کے کزن تھے۔

12 اگست 2017 کو لاہور میں نواز شریف ایک جلسے میں ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔ — اے ایف پی
12 اگست 2017 کو لاہور میں نواز شریف ایک جلسے میں ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔ — اے ایف پی

استغاثہ ممکنہ طور پر اضافی ثبوت اکھٹے کرنے میں اس لیے ناکام رہا کیوں کہ ان پر سپریم کورٹ کی جانب سے کام مکمل کرنے کی ڈیڈلائن کا دباؤ تھا جو کہ پاکستان میں فوجداری مقدمات میں ایک نایاب بات ہے۔

ابتدائی طور پر اعلیٰ عدلیہ نواز شریف کے خلاف تینوں ریفرینسز کی سماعت کی تکمیل 7 مارچ 2018 تک چاہتی تھی، یعنی جج محمد بشیر کی جانب سے پہلے ریفرینس کی سماعت کے آغاز کے 6 ماہ بعد۔ بعد میں ڈیڈلائن 3 مرتبہ بڑھائی گئی، پہلی مرتبہ 2 ماہ کے لیے اور پھر بعد میں ایک ایک ماہ کے لیے۔

ٹرائل کے آخری مراحل میں سپریم کورٹ نے وکلاء اور جج کو حکم دیا کہ اگر ہفتہ وار چھٹی کے دن بھی کام کرنا پڑے، تب بھی اس مقدمے کو فی الفور انجام تک پہنچایا جائے۔ اس حکم پر ردِ عمل دیتے ہوئے 11 جون 2018 کو حارث نے نواز شریف کی وکالت چھوڑنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ٹرائل کی شرائط "ڈکٹیٹ" کرتی رہی تو وہ مقدمے پر کام نہیں کر سکتے، مگر بعد میں وہ 10 دن کے اندر وکلائے دفاع کی ٹیم میں دوبارہ شامل ہوگئے۔

شاید سپریم کورٹ کی دی ہوئی ڈیڈلائن پر پورا اترنے کی ہی وجہ سے احتساب عدالت نے ابتدائی مراحل میں ہی وکلائے دفاع کی جانب سے تینوں ریفرینسز کو ایک ساتھ ملا دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ حارث نے بار بار دلیل دی کہ چوں کہ تینوں ریفرینسز میں 60 فیصد سے زائد گواہ اور ثبوت ایک جیسے ہی ہیں، اس لیے ایک ریفرینس میں ان کے دلائل باقی ریفرینسز میں بھی ان کے دفاعی دلائل کا کام دے دیں گے۔ یہ درخواست بالآخر تب قبول ہوئی تب ایون فیلڈ مقدمے میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اور باقی دو ریفرینسز کی سماعت کے لیے ایک نئے جج کو مقرر کیا گیا جو اب ایک ہی ساتھ شروع ہوں گے۔


جج بشیر کے فیصلے کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور نیب کے وکلائے استغاثہ سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کو ایک طرح سے اپنے بچوں کا والد ہونے کی وجہ سے قید کی سزا سنا دی ہے:

انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ "پورا خاندان: بیٹی، بیٹے اور والد ایک ہی ہیں چنانچہ ملزم نمبر 1 یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے کوئی رقم فراہم نہیں کی ہے۔"

مگر جج نے نواز شریف کو ان کے خلاف نیب آرڈیننس کی شق 9 (اے)(4) کے تحت عائد الزامات سے بری کر دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ جج کے نزدیک انہوں نے دولت بنانے کے لیے عوامی عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا، مگر انہیں اسی آرڈیننس کی اگلی شق 9 (اے)(5) کے تحت سزا سنائی: یعنی معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ اثاثوں کی ملکیت رکھنا۔

شق 9 (اے)(5) سے متعلق کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں اعلیٰ عدالتوں نے کسی شخص کے اثاثوں کے اس کی آمدنی سے زائد ہونے کے متعلق ثبوتوں کے معیار کے بارے میں مختلف حدود متعین کی ہیں۔ مثال کے طور پر 2011 میں سپریم کورٹ کے سینئر جج آصف سعید کھوسہ نے بدعنوانی کے مقدمے غنی الرحمٰن بنام نیب میں اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ استغاثہ کو ملزم کے ذرائع آمدنی ریکارڈ پر لانے چاہیئں اور اثاثوں کے حصول اور عوامی عہدے کے غلط استعمال کے درمیان تعلق ثابت کرنا چاہیے۔

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ نے 2007 میں ایک مقدمے حاکم علی زرداری بنام ریاست میں اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اثاثوں کی ملکیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جرم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ان 4 لوازمات پر بھی روشنی ڈالی جن کو پورا کیے بغیر شق 9 (اے) (5) کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی۔ اگر ان لوازمات کو اپنے لفظوں میں لکھیں تو: ملزم کا جرم کے وقوع کے وقت عوامی عہدے پر فائز ہونا ثابت کرنا ہوگا، اس کی ملکیت میں موجود جائیدادوں کی قیمت کا تعین کرنا ہوگا، اس کے معلوم ذرائع آمدنی سامنے لانے ہوں گے، اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی ملکیت میں پائے گئے اثاثے اس کے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں۔

نیب کے وکلائے استغاثہ نے ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کی ہے: انہوں نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین نہیں کیا ہے؛ انہوں نے یہ ثابت نہیں کیا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے پاس انہیں خریدنے کے لیے دولت موجود نہیں تھی؛ انہوں نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ نواز شریف نے یہ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے دولت اکھٹی کرنے کی غرض سے عوامی عہدے کا ناجائز استعمال کیا۔

مگر ایک اور اہم سوال ان تمام لوازمات پر بحث پر سبقت لے جاتا ہے: کسی وائٹ کالر جرم میں بارِ ثبوت کس کے کندھوں پر ہوتا ہے؟ کیا استغاثہ کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ الزامات عائد کرے اور پھر وکلائے دفاع ان الزامات کو غلط ثابت کریں؟ کیا اس سے ایک طویل عرصے سے قائم قانونی کلیے کی نفی نہیں ہوتی کہ ایک شخص تب تک بے قصور ہے جب تک اسے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے؟

15 جون 2017 کو نواز شریف اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے لیے مختص عمارت سے باہر آ رہے ہیں۔ — محمد عاصم، وائٹ اسٹار
15 جون 2017 کو نواز شریف اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے لیے مختص عمارت سے باہر آ رہے ہیں۔ — محمد عاصم، وائٹ اسٹار

جون 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد بنام ریاست میں اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ "انتہائی واضح کر دیا گیا ہے کہ اثاثوں کا آمدنی سے زائد ہونا صرف معلوم ذرائع آمدنی کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہ معلوم ذرائع آمدنی ثابت کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر استغاثہ کی ہے۔" فیصلے میں ایک اور مقدمے خان اسفند یار ولی بنام وفاقِ پاکستان میں 2001 کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے کہ "بارِ ثبوت دفاع کی جانب منتقل ہو اور انہیں خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے کہا جائے، استغاثہ کو بنیادی حقائق سامنے لانے ہوں گے۔"

لاہور میں مقیم وکیل رضا علی جو کہ کارپوریٹ لاء کے ماہر ہیں، ان کے مطابق استغاثہ کے لیے بارِ ثبوت ملزم پر منتقل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ یہ ثابت کرنا ہے کہ ملزم کے اثاثے اس کے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "کیا نیب نے ہر معقول شبہے سے بالاتر ہو کر کیا یہ ثابت کر دیا ہے کہ جائیدادوں کی تعین کردہ قیمت جائیدادوں کے حصول کے وقت نواز شریف کے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ تھی؟ نہیں، اس نے ایسا نہیں کیا ہے۔"

رضا علی کے مطابق ایون فیلڈ مقدمے میں دفاع نے "واقعات کا ایک تسلسل پیش کیا اور پھر وہ اس پر قائم رہے۔ اب یہ استغاثہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنا بیانیہ، گواہ، دستاویزات، منی ٹریل اور واقعات کی تواریخ سامنے لاتے تاکہ دفاع کی کہانی غلط ثابت ہوتی اور استغاثہ کا مقدمہ ٹھوس ہوتا۔" دوسری جانب استغاثہ کی ساری توجہ "دفاع کے دلائل کھوکھلے کرنے پر رہی۔"

اہم بات یہ ہے کہ استغاثہ کو صرف ایک شخص جج محمد بشیر کو قائل کرنے کی ضرورت تھی، اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہا۔


فیصلہ سنائے جانے کے کئی ہفتوں بعد تمام متعلقہ افراد — وکلائے دفاع، استغاثہ، صحافی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان — اسلام آباد ہائی کورٹ میں تقریباً ایک ہی توقع کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ بینچ پر ایک نہیں بلکہ دو قابل جج صاحبان اطہر من اللہ اور میاں گل حسن اورنگزیب بیٹھے ہیں۔ نسبتاً کم سیکیورٹی کی وجہ سے کچھ مجمع نواز شریف کی اپنی سزا کی جج محمد بشیر کے فیصلے کے خلاف اپیل کے فیصلے تک معطلی کے لیے درخواست کی پہلی سماعت دیکھنے کے لیے جمع ہو چکا ہے۔

جج صاحبان کے سامنے وکلاء کا مانوس سا گروہ موجود ہے۔ ایک جانب سردار مظفر عباسی کی قیادت میں نیب کے وکلائے استغاثہ ہیں تو دوسری جانب خواجہ حارث کی قیادت میں وکلائے دفاع۔ جج اطہر من اللہ اپنی کرسی میں ایک جانب جھکے ہوئے بیٹھے ہیں جبکہ ان کی بھنوئیں اٹھی ہوئی ہیں۔ وہ آہستہ مگر واضح آواز میں بولنا شروع کرتے ہیں ٹاکہ کمرے میں موجود تمام افراد سن سکیں۔ وہ استغاثہ کے مرکزی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں "اگر نیب نے شق 9 (اے) (4)، جو کہ بدعنوانی سے دولت اکھٹی کرنے کی شق ہے، کے تحت مدعا علیہ کے بری ہونے کو چیلنج نہیں کیا ہے تو کیا عدالت یہ سمجھے کہ آپ نے اس حوالے سے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے؟"

سردار مظفر عباسی جنہیں شاید کمرہ عدالت میں کڑے سوالات کا سامنا کرنے کی عادت نہیں ہے، گڑبڑا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیب نے فیصلے کے اس حصے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ جج اطہر من اللہ سوال کرتے ہیں "تو پھر آپ نے اس کے خلاف اپیل کیوں نہیں دائر کی؟" عباسی کہتے ہیں کہ کیوں کہ ویسے بھی سزا "آزادانہ" طور پر شق 9 (اے) (5) کے تحت دے دی گئی ہے۔

مگر من اللہ دوبارہ سوال کرتے ہیں اور اورنگزیب ان کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر الزامات 2 جرائم کے لگائے گئے ہیں تو نیب کیسے ایک جرم میں ان کے بری ہونے کو تسلیم کر سکتا ہے جبکہ دونوں بڑی حد تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں؟ اورنگزیب کہتے ہیں "آپ خود اپنی شکست کے لیے دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ دونوں الزامات ایک دوسرے سے منسلک نہیں تو آپ یہ مان رہے ہیں کہ مدعا علیہ نے جائیدادیں بدعنوانی کے ذریعے نہیں بنائیں کیوں کہ انہیں اس الزام سے بری کر دیا گیا ہے۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے [اثاثے] کہاں سے حاصل کیے مگر آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ بدعنوان طریقوں سے حاصل نہیں کیے گئے۔"

عباسی کوئی اطمینان بخش جواب لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ دفاعی ٹیم پیچھے کھڑی اس بحث کو آگے بڑھتا دیکھتی رہتی ہے۔ زیادہ تر بات چیت اطہر من اللہ کر رہے ہیں مگر اورنگزیب بھی وقتاً فوقتاً ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ دونوں اکثر پشتو میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔

ججز پھر مریم کو دی گئی سزا پر سوال اٹھاتے ہیں اور استغاثہ سے وضاحت کرنے کو کہتے ہیں کہ آیا وہ نواز شریف پر منحصر تھیں یا بے نامی دار (کوئی ایسا شخص جو جائیداد کے حقیقی مالک کی ایماء پر اثاثوں کا مالک ہو) تھیں۔ اطہر من اللہ نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کی جانب سے جمع کروایا گیا ٹرسٹ معاہدہ جعلی بھی ہے تب بھی بے نامی دار ہونا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں ہے۔

وہ اس حوالے سے بھی پریشانی کا شکار ہیں کہ مریم کو کیسے آمدن سے زائد اثاثوں کی ملکیت کا مجرم قرار دیا گیا ہے اگر اثاثے ان کی نہیں بلکہ ان کے والد کی ملکیت ہیں؟ اطہر من اللہ مظفر عباسی کی مداخلتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "نیب کو اس حوالے سے واضح مؤقف اپنانا ہوگا کہ جائیدادیں کس کی ملکیت ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جائیدادیں درحقیقت نواز شریف کی ملکیت ہیں مگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ان کا بدعنوانی سے حاصل کرنا ثابت نہیں کر سکتے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ بچے ان پر منحصر بھی ہیں مگر بینیفشل اونر بھی ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملکیت کس کی ہے یہ پتہ لگانا مشکل ہے مگر پھر آپ بچوں اور والد دونوں کو ہی سزا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔" اطہر من اللہ اپنی کرسی سے آگے بڑھتے ہوئے کہتے ہیں، "مجھے تینوں میں سے ایک نام بتائیں کہ جائیدادیں کس کی ہیں: نواز، مریم یا حسین؟"

مظفر عباسی اس نکتے سے جھنجھلا جاتے ہیں اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کی گہری فہم حاصل کرنے کے لیے مقدمے کا تمام مواد پڑھنا پڑے گا۔ جب وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ ججز ان کے دلائل سے مطمئن نہیں تو وہ فلور خواجہ حارث کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔


اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے ٹاپ فلور پر موجود ایگزیکٹیو لاؤنج حالیہ وقتوں میں کئی ماہ سے خواجہ حارث کے دفتر کا کام دے رہا ہے۔ وہ لکڑی کے کام اور دبیز قالینوں والے اس شاندار کمرے میں اکثر دیر رات تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں جو کہ مختلف میزوں پر اپنے اپنے لیپ ٹاپس میں مصروف نظر آتے ہیں۔

حارث ایک مایہ ناز لاہوری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے چچا خواجہ خورشید انور پاکستانی فلمی صنعت کے صفِ اول کے موسیقار تھے اور ان کے والد اور دادا دونوں نے ہی قانون کی زبردست پریکٹس کی ہے۔ وہ تقریباً دو دہائیوں سے نواز شریف سے متعلق مقدمات سنبھال رہے ہیں جن میں 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے طیارے کی ہائی جیکنگ کا مقدمہ بھی ہے جس کا الزام نواز شریف پر لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ حارث کچھ سال قبل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔

چکنے بالوں میں نفاست سے نکالی ہوئی مانگ اور کلائی میں فٹنس ڈیوائس پہنے ہوئے خواجہ حارث کے گرد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی نامعقول چیز پسند نہیں۔ ان کے سر پر ایک بال بھی اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں، جبکہ ان کی گھنی مونچھوں کنگھی سے بنی ہوئی ہیں۔

گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس خواجہ حارث چمڑے کے صوفے پر بیٹھے ہیں۔ ویٹر ان کے سامنے چائے کا کپ رکھتا ہے تو وہ دھیمی اور پرسکون آواز میں بولنا شروع کرتے ہیں اور ان کی آواز میں کھڑکی پر پڑ رہی پھوار کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے: "آمدن سے زائد اثاثوں کا مقدمہ اپنے آپ میں نہایت سادہ حساب کتاب ہے۔ سب سے پہلے اثاثے کی قدر و قیمت کا تعین کیا جانا چاہیے، اثاثوں کے حصول کے وقت ملزم کے ذرائع آمدن کا تعین کیا جانا چاہیے، اور ان دونوں میں عدم توازن کا تعین کرنا چاہیے۔ اگر ہوگا تو وہ خود بولے گا۔ اسے ثابت کیے بغیر آپ کیسے کسی شخص کو صرف تاثر یا مفروضوں کی بناء پر سزا دے سکتے ہیں؟"

حارث دلیل دیتے ہیں کہ اگر استغاثہ نے اپارٹمنٹس کی قیمت دی ہوتی تو وہ ضرورت پڑنے پر آسانی سے دکھا دیتے کہ نواز شریف اس وقت ان اپارٹمنٹس کی قیمت نہایت آسانی سے ادا کرسکتے تھے۔" وہ اضافہ کرتے ہیں کہ "مگر وہ چاہتے ہیں کہ میں ایسی جائیداد کی منی ٹریل دوں جو کہ میری ہے ہی نہیں۔"

خواجہ حارث اکثر کمرہ عدالت میں اپنے کلائنٹ کے لیے 'میں' کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی انداز میں گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، "میں نے منی ٹریل فراہم کی حالاں کہ یہ استغاثہ کا کام ہے۔ پر اگر یہ غیر اطمینان بخش تھی تو کیا کوئی متبادل فراہم کیا گیا تھا؟ کیا استغاثہ خود یہ معلوم کر پایا ہے کہ یہ جائیدادیں کس کی ملکیت ہیں اور کیسے؟"

پھر وہ رک کر اپنے ایک ساتھی کو ہدایات دیتے ہیں۔ آدھی رات سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے اور قریبی کاؤنٹر پر موجود ویٹر لابی میں بج رہے میوزک کی آواز سے غنودگی میں جا چکا ہے۔ حارث ایک اور کپ چائے منگواتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ شریف خاندان کے اندرونی معاملات سے واقف ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کبھی بھی خاندانی کاروبار چلانے میں شامل نہیں رہے، خاص طور پر ان کے والد محمد شریف کے دور میں تو بالکل بھی نہیں جن کا فیصلہ سرمایہ کاری سے لے کر پوتوں پوتیوں کی جیب خرچ تک پر چلتا تھا۔

"ویسے تو ان کے بچوں کے اس میں شامل ہونے کے علاوہ ایک بھی چیز نہیں جو نواز شریف کو ان اپارٹمنٹس سے منسلک کرے مگر پھر بھی آپ اور میں دونوں مان سکتے ہیں کہ وہ مجرم ہیں۔ مگر جب آپ عدالت میں کسی شخص کو مجرم قرار دلوانے جائیں تو جرم کے حوالے سے صرف ایک عام آدمی کا تاثر کافی نہیں ہوتا۔ آپ ہمیشہ فیصلے میں غلطی کر سکتے ہیں مگر جب بھی کوئی غیر یقینی صورتحال ہو یا پھر حقائق کی ایک متبادل تشریح موجود ہو، تو مقدمے کا فیصلہ ہمیشہ ملزم کے حق میں ہونا چاہیے، یہ قانون ہے۔"

پھر حارث ایک دعویٰ کرتے ہیں جو کہ سیاستدانوں پر زیادہ بہتر جچتا ہے۔ "اس مقدمے پر بیرونی دباؤ ہر اس شخص کو معلوم ہے جو اس مقدمے پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو صرف نقطے ملانے کی ضرورت ہے۔ وہ ایسی "منصوبہ بندی" کا ذکر کرتے ہیں "جس پر ہم آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے" مگر اعتراف کرتے ہیں کہ "ظاہر ہے کہ اگر ہمیں کہا بھی جائے تو ہم اس منصوبہ بندی کو ثابت نہیں کر سکتے۔"

باہر پڑ رہی پھوار اب موسلا دھار بارش میں بدل چکی ہے۔ حارث اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہیں اور واپس اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگلے دن کی سماعت کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔


انگلش میں پڑھیں ترجمہ: بلال کریم مغل