تعلقات عامہ کی کامیابیوں کا اندازہ ان سے مرتب ہونے والے اثرات اور اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آیا ان سے طویل مدتی فوائد حاصل ہوئے ہیں یا نہیں۔
جب تک پاکستان پالیسی اقدام کے ذریعے عالمی رائے میں سبقت لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتا تب تک اس رائے عامہ کی فتح سے شاید کچھ ٹھوس نتائج حاصل نہ ہوں۔
او آئی سی کی جانب سے اسلام آباد سے رائے لیے بغیر متحدہ عرب امارات میں منعقدہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جانے پر پاکستان نے او آئی سی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک معقول فیصلہ ہے۔
غالب امکان ہے کہ وہ دعوت نامہ اجلاس کے میزبان ابو ظہبی نے دیا، جس کا شاید اسلام آباد سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھارت کو اپنے تیل اور پیٹرول مصنوعات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دہلی کو اس کے قریبی ساتھی تہران سے دور کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں۔
پاکستان کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی اور بھرپور طریقے سے اپنا کیس رکھنا چاہیے تھا اور ہندوستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتا۔
کسی کو بھی یہ ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پوری کشیدہ صورتحال مقبوضہ کشمیر اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرتے کشمیری عوام کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ حق خودارادیت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔
یہ مضمون 2 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔