انسانی حقوق کی تنظیمیں افضل کے قتل کی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے ناں کہ ان تنظیموں کے پاس کھٹکھٹانے کو صرف اسی نظام کا دروازہ ہے جس نے افضل اور اس کے اہلِ خانہ کو کئی کئی بار ناکامی کا مزہ چکھایا ہے۔ ایک ایسا نظام جس کی خلیجیں سب سے پہلے جرگے ہی واضح کرچکے ہیں، وہی جرگے جو اس نظام کے مینڈیٹ کو مسترد کردیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ خلیجیں خود نظام کی جانب سے آئین کی توہین کرنے والوں کو سزا دینے میں ناکامی سے بھی ظاہر ہوئیں (افضل کے بھائیوں کے قتل کے الزام میں جن 6 افراد پر 2013ء میں فردِ جرم عائد کیا گیا تھا، انہیں 2017ء میں ہائی کورٹ کی سطح پر بری کردیا گیا تھا۔)
اس پوری صورتحال میں ہمارے رہنما کن چیزوں میں مشغول ہیں؟ بڑے بڑے انفرااسٹرکچر پر مشتمل منصوبوں، زمینی و سیاسی تعلقات کی متقاضی ناختم ہونے والی اسکیموں، سازشی نظریات اورموجودہ بحرانوں، جو ہماری سیکیورٹی پالیسیوں کو اس قدر دُور لے گئے ہیں کہ جہاں تنقیدی نگاہ جا ہی نہیں سکتی۔
مگر افضل کی موت جیسے واقعات پر محدود وقت کے لیے شور اٹھتا ہے اور پھر لوگ اسے بھول جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعات اب عام حالات کا حصہ بن چکے ہیں۔
جب تک ہر ایک پاکستانی کسی بھی شہری کے قتل کو ایک نظر کے ساتھ دیکھتے ہوئے اور مساوی انداز میں ناقابلِ قبول سمجھتے ہوئے شدید ردِعمل نہیں دیتا، اور جب تک ریاست ہر ایک فرد کو انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی تب تک عظمتوں کے دیگر تمام دعوے کھوکھلے ہی رہیں گے۔
یہ مضمون 11 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔