لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔

جو معاملہ ایک گانے اور رقص سے شروع ہوا تھا اسے تشدد کے ایک ناختم ہونے والے سلسلے کی طرح جاری و ساری دیکھا جاسکتا ہے۔ 2012ء میں کوہستان میں 5 خواتین کے ’غیرت‘ کے نام پر قتل کو منظرِ عام پر لانے والے افضل کوہستانی کا قتل کوئی حیران کن واقعہ نہیں، کیونکہ خود افصل کو کئی برسوں سے اپنی جان جانے کا ڈر لاحق رہا۔

لیکن اس کے باوجود افضل کا قتل ہمیں حیرت میں مبتلا کردیتا ہے کہ آخر اس قدر جرأت کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ کسی کا انجام اس طرح اٹل کیسے ہوسکتا ہے؟ ساتھ ساتھ یہ واقعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ریاستِ پاکستان کی رٹ کی کس حد تک دھجیاں اڑائی گئی ہیں (اگر کوئی ایسی رٹ وہاں رہی ہوگی)

افضل کو گزشتہ ہفتے ایبٹ آباد کے ایک گنجان علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ المناک بات یہ ہے کہ ان کی موت اس سلسلے کی کڑی ہے جسے ایک بظاہر جمہوری ملک میں طویل عرصے سے کھینچا گیا ہے، وہی ملک جسے 21ویں صدی میں آگے بڑھنے کی امید ہے۔

جب سے وہ شادی کی تقریب ہوئی ہے، جس میں چند مرد و خواتین کی تالی بجاتے، گاتے اور رقص کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈ کی گئی تھی تب سے ایک کے بعد ایک المناک واقعات پیش آتے رہے۔ جرگہ بلایا گیا جس میں فیصلہ یہ ہوا کہ خواتین پر آخری سانس تک تشدد کیا جائے اور اس کی ویڈیو بنائی جائے۔ چند کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو دہکتے کوئلوں میں جھونک کر ماردینے کا کہا گیا تھا۔ پھر افضل نے اس ’غیرت‘ کے نام پر ہونے والے قتل کا معاملہ میڈیا اور مقامی حکام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے تشدد کے سلسلے کو مزید تقویت ملی اور اس وقت سے اب تک لڑکیوں کے اہل خانہ کی جانب سے کوہستانی کے 3 بھائیوں کو قتل کیا چکا ہے، ان کے گھر پر بمباری کی گئی اور اب وہ خود بھی مارے جاچکے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں بھی شدید ردِعمل نظر آیا ہے۔ مقامی افسران جن پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری عائد تھی انہوں نے یہ تصدیق کی کہ لڑکیاں زندہ ہیں۔ مقامی حکام نے افضل کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا کہ تحقیقات اس بنیاد پر کی جائے کہ ان کے اٹھائے گئے اقدامات قبائلی قوانین کے خلاف جاتے ہیں۔

چند دیگر خواتین کو ویڈیو میں موجود خواتین بتاکر سپریم کورٹ سو موٹو تحقیقات کے لیے دشواریاں پیدا کردی گئیں۔ اس کور اپ کی سفاکی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کہانی پیش کرتی ہے، جیسے ایک جج کی رپورٹ کے مطابق، مقتول لڑکیوں کے طور پر پیش ہونے والی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کے انگلیوں کے نشان جلے ہوئے تھے تاکہ اس کی ٹھیک طور پر شناخت نہ ہوپائے۔

افضل کو مسلسل جان سے ماردینے کی دھمکیاں ملتی رہیں۔ انہوں نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ ایک جرگے نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب بھی اچھا موقع ہاتھ آئے اسے قتل کردیا جائے۔ افضل کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کو دینے کے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کردیا گیا اور یوں اس کا نتیجہ ان کی بے محل اور خواہ مخواہ قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔

ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ اس سیاہ کیس میں چند روشنی کی کرنیں بھی نظر آتی رہیں۔ جیسے 2018ء میں کیس کو دوبارہ کھولا گیا، لڑکیوں کے اہلِ خانہ میں شامل متعدد مردوں کو گرفتار کیا گیا، سچ بولنے پر راضی چند مقامی افسران نے گواہیاں دیں اور اس پورے معاملے پر میڈیا کی توجہ رہی۔ مگر یہ تمام باتیں ان بڑھتی ہوئی المناکیوں کے مقابلے میں بہت ہی معمولی سی لگتی ہیں۔

برسوں سے ان واقعات کو بنیادی طور پر صنفی عینک لگا کر دیکھا گیا ہے، جس میں مرکزی نکتہ حقیقی ’غیرت‘ کے نام پر قتل اور ان فرسودہ قوانین کو رکھا گیا ہے جو اس قسم کے تشدد میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک میں ان نکات پر درست طور پر زور دیا جاتا ہے کہ جہاں ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین ’غیرت‘ کے نام پر قتل کی جاتی ہیں (یہ تو رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد ہے جبکہ ایسے ناجانے کتنے کیسز ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے)۔

اس کیس کے منظرِ عام پر آنے سے پاکستان میں تیزی سے ہوتی ترقی کے تناظر میں ریت و رواج اور جدت پسندی کے درمیان ٹکراؤ کے بارے میں مباحثے کو ہوا ملی، جیسے موبائل فون مقابلہ مذہبی عالم، سوشل میڈیا بمقابلہ قبائلی قوانین، نوجوان بمقابلہ عمر رسیدہ۔

مگر اس کیس کی کہانی ان باتوں تک ہی محدود نہیں۔ یہ کیس ریاست کی دیرینہ کمزوریوں کو پیش کرتا ہے۔ جیسے متوازی قانونی نظام کی مضبوطی، پاکستانی معاشرے میں اسلحہ کا فروغ اور ماورائے قتل میں آسانی، قانون کی حکمرانی کی ناکامی، مقامی حکام اور پولیس جیسے ریاستی اداروں کی جرم میں شراکت داری، احتساب کی فراہمی میں میڈیا کی کمزوری اور سویلین قانون کے نفاذ میں ناکامی۔

پاکستان نے گزشتہ چند دن بھرپور انداز میں حوصلہ افزائی کرتے اور داد دیتے ہوئے گزارے، جیسے کہ وزیرِاعظم کسی اسٹیٹس مین سے کم نہیں، اس کے ایف-16 ان کے مگ طیاروں سے بہتر ہیں، اس نے کالعدم گروہوں کے خلاف کارروائی کا اٹل فیصلہ کرلیا ہے۔

مگر افضل کے قتل کے بعد یہ باتیں عجیب سی لگتی ہیں۔ اگر آپ کی پولیس تحفظ فراہم نہ کرسکتی ہو، آپ کی عدالتیں انصاف فراہم نہ کرپاتی ہوں اور آپ کے خبر رساں ادارے حقیقت کو پیش کرنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں خود مختاری کی کیا قیمت رہ جاتی ہے؟

انسانی حقوق کی تنظیمیں افضل کے قتل کی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے ناں کہ ان تنظیموں کے پاس کھٹکھٹانے کو صرف اسی نظام کا دروازہ ہے جس نے افضل اور اس کے اہلِ خانہ کو کئی کئی بار ناکامی کا مزہ چکھایا ہے۔ ایک ایسا نظام جس کی خلیجیں سب سے پہلے جرگے ہی واضح کرچکے ہیں، وہی جرگے جو اس نظام کے مینڈیٹ کو مسترد کردیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ خلیجیں خود نظام کی جانب سے آئین کی توہین کرنے والوں کو سزا دینے میں ناکامی سے بھی ظاہر ہوئیں (افضل کے بھائیوں کے قتل کے الزام میں جن 6 افراد پر 2013ء میں فردِ جرم عائد کیا گیا تھا، انہیں 2017ء میں ہائی کورٹ کی سطح پر بری کردیا گیا تھا۔)

اس پوری صورتحال میں ہمارے رہنما کن چیزوں میں مشغول ہیں؟ بڑے بڑے انفرااسٹرکچر پر مشتمل منصوبوں، زمینی و سیاسی تعلقات کی متقاضی ناختم ہونے والی اسکیموں، سازشی نظریات اورموجودہ بحرانوں، جو ہماری سیکیورٹی پالیسیوں کو اس قدر دُور لے گئے ہیں کہ جہاں تنقیدی نگاہ جا ہی نہیں سکتی۔

مگر افضل کی موت جیسے واقعات پر محدود وقت کے لیے شور اٹھتا ہے اور پھر لوگ اسے بھول جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعات اب عام حالات کا حصہ بن چکے ہیں۔

جب تک ہر ایک پاکستانی کسی بھی شہری کے قتل کو ایک نظر کے ساتھ دیکھتے ہوئے اور مساوی انداز میں ناقابلِ قبول سمجھتے ہوئے شدید ردِعمل نہیں دیتا، اور جب تک ریاست ہر ایک فرد کو انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی تب تک عظمتوں کے دیگر تمام دعوے کھوکھلے ہی رہیں گے۔


یہ مضمون 11 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں