شہر کے چند اہم مشاہدہ کار مسلم لیگ (ن) کو ختم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے اور ممکن ہے کہ وہ اس بات سے بھی متفق ہوں کہ میاں صاحب کی روانگی پارٹی کے لیے نقصان کا باعث ہوگی جو اب اندرونی اور بیرونی طور پر اور بھی زیادہ چیلنجز سے دوچار ہوجائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ تکرار کے اس لمحے میں کسی حل کا ہونا بہت ضرورت ہے، سیاست میں آخری جواب یا حتمی فتح نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ میاں صاحب کی گزشتہ تکرار کا انجام یہ نکلا کہ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کی جماعت انتخابات میں ہار گئی۔
مگر یہ 2 فریقین کے درمیان جاری جنگوں کے ایک سلسلے کی ایک کڑی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جنگیں جاری ہیں اور اس وقت تک مزید جنگیں دیکھنے کو ملیں گی اور مزید تنازعات سر اٹھاتے رہیں گے جب تک دونوں فریقین یا ان میں سے کسی ایک کی قوت پوری طرح سے ختم نہیں ہوجاتی۔
میاں صاحب بطور ایک تجربہ کار سیاستدان اور بلاول بھٹو اپنے والد کے پکے شاگرد کے طور پر اس بات سے ضرور باخر ہوں گے۔ انہیں امید رہے گی کہ ان کے نئے مخالف وزیرِاعظم عمران خان جتنا جلدی اس بات کو سمجھ جائیں اتنا ہی اچھا ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینے پر اپنی پوری توانائی خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ کون جیل میں آتا ہے یا کون جاتا ہے۔
یہ مضمون 15 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔