اشعر رحمان لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
اشعر رحمان لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تکرار کے اس لمحے میں کسی حل کا ہونابہت ضرورت ہے، سیاست میں آخری جواب یا حتمی فتح نامی کوئی چیز نہیں ہوتی

آپ میں سے کئی لوگوں کو زندگی میں ایک ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ضرور ہوا ہوگا جو ہر صورت اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو دیگر کے نزدیک ہر طرح سے معقول ہوتی۔

یہ شخص آپ کو ہر کہیں، ہر قسم کی صورتحال میں عام سمجھ بوجھ کے بھی الٹ اپنی ضد پر اڑا نظر آئے گا اور سر ہلاتے ہلاتے پُرطیش روح جیسا رویہ اپنائے رکھے گا، جبکہ جس خیال پر وہ اڑا ہوتا ہے اس پر ارد گرد کے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی وضاحت بھی نہیں ہوتی۔ وہی ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ لگانے والے لوگ۔

میاں نواز شریف مکمل طور پر تو ایسے لوگوں میں شمار نہیں ہوتے، حالانکہ لاہور میں کئی افراد آج اپنے محبوب رہنما کی معصومیت پر مسلسل یقین کی وجہ سے اس کیٹیگری میں شامل کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے۔

ان میں سے ایک کا کہنا کچھ یوں ہے کہ، ’ہم ضدی لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیے جانے کی ہر طرف سے کی جانے والی درخواستوں اور گزارشات کو مسترد کرکے میاں صاحب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان سے نمٹنا بالکل بھی آسان نہیں۔‘

یقیناً میاں صاحب کو معلوم ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور یہ کہ دیگر افراد جو انہیں کچھ عرصے سے ایک خاص سمت کی طرف دھکیل رہے ہیں ان کے ذمے کیا کچھ بڑے مقاصد ہیں۔

اب پیپلزپارٹی کے بالغ ہوچکے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ایک مشن کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ 12 برس قبل جو ان کی قابلِ احترام والدہ نے کامیاب کوشش کی تھی وہ اس کے ٹھیک الٹ کام کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ان کی والدہ ہی تھیں جنہوں نے شریفوں کو پاکستان واپسی کے لیے نہ صرف قائل کیا بلکہ 2007ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار بھی کیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ انتخابات ان کی اپنی وفات کی وجہ سے 2008ء میں منعقد ہوئے تھے۔

موجودہ حالات میں جو نیا نیا ہے وہ ہے ان کے والد کا چہرہ۔ بلاول بھٹو زرداری اب ایک ایسی مہم کے انچارج کی طرح ہیں جو بالآخر میاں صاحب کو ایک بار پھر جیل سے دیارِ غیر تک لے جاسکتے ہیں۔

جس طرح سابق وزیرِاعظم کو لاحق دل میں تکلیف کی شکایت کا تذکرہ کثرت سے میڈیا پر دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس طرح یہ اصرار سامنے آ رہا ہے کہ اس بیماری کا علاج ملک میں نہ تو ہوسکتا ہے اور نہ ہی کبھی کروایا جاسکتا ہے، اسے مدِنظر رکھتے ہوئے لابنگ کرنے والے اب مستقبل قریب میں ان کی روانگی کی تاریخ کا تعین کرنے میں جُٹ گئے ہیں۔ گرمیوں میں لاہور پر سورج کی تپش بڑھنے سے قبل روانگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

یہ اہم کام جس کے بدلے میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو ملنے والے ذاتی فائدوں کا منظرِ عام پر آنا باقی ہے، اس نے بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے، حتیٰ کہ میاں صاحب بطور وزیرِاعظم پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو اپنے والد کے ہمراہ دیکھنے تک کے لیے راضی دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اب اگر سابق وزیرِاعظم نے یقیناً آصف زرداری کے بغیر، پارٹی چیئرمین سے بالآخر ملاقات کے لیے حامی بھری تو ایسے میں ہمیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزرا کی کوئی ضرورت جو ہمیں یہ بتائیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میاں صاحب کی جیل میں موجودگی کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں۔

جہاں تک سوال ہے کہ یہ سیاست کس کے لیے ہوسکتی ہے، تو یہ آپ ہی بتائیے کہ جیل میں موجود ایک شخص کے لیے ایک آزاد فرد کی طرح چہل قدمی کرنے کے امکان سے بڑی چیز اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور اگر سیاست کی یہی وجہ درست ہے کہ میاں صاحب اتنا دُور چلے جائیں کہ جہاں ان کا اس ملک پر اور اس ملک کا ان پر کوئی اثر نہ رہے۔ تو پھر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو اس کام کو پکارنے سے روک رہی ہے جو کہ حقیقی کام ہے: یعنی ایک ڈیل کے لیے لابنگ جو قیدی اور انہیں قید میں رکھنے والی حکومت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

عملی سیاست کی گہرائی تک پیوست یہ تھیوری کچھ یوں ہے کہ میاں صاحب کو، اگرچہ اور جب عدلیہ کی مداخلت کے ذریعے یہ ممکن ہوا، جانے کی اجازت دینے سے یقینی طور پر حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔ پی ٹی آئی کی بہت ساری قوت میاں صاحب کی قید سے متعلق اٹھنے والے معاملات کو سمجھانے میں خرچ ہوجاتی ہے اور دل کی تکلیف کا علاج بھی ان میں سے ایک معاملہ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت پُرسکون ہوکر ایک نئے باب میں حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں سوچنا چاہے، ایک ایسا باب جس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

اپنے بڑے بھائی کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے اس وقت شہباز شریف بھلے ہی سرگرم نظر آ رہے ہوں مگر اس کے باوجود بلاشبہ میاں شہباز شریف کو پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میاں صاحب کے طبّی علاج کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی ثانوی قیادت اور اس کے کئی سارے تنظیمی گروہوں میں چھائی خاموشی سے بہت کچھ اخذ کیا گیا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ معاملے کی سنگینی اور حساسیت ہی ہو جس کے باعث مسلم لیگ (ن) کے کیمپ میں موجود بہت سارے لوگ اپنے رہنما کی صحت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں حصہ نہ لینا چاہتے ہوں۔ ان کی جانب سے ایک ناخوشگوار جملہ بھی صورتحال کو نواز شریف کے خلاف لے جاسکتا ہے۔

جو اس ملک، اس کے نظام اور اس کے رہنماؤں کی نئے سرے سے بنیاد رکھنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اسے ایک ناقابلِ برداشت قریب الوقوع فراریت سمجھتے ہیں، لیکن اگر یہ سروے کروایا جائے کہ لاہور آنے والے دنوں کے بارے میں کیا سوچتا اور سمجھتا ہے تو انہیں کافی اچھا دھچکا لگ سکتا ہے۔

شہر کے چند اہم مشاہدہ کار مسلم لیگ (ن) کو ختم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے اور ممکن ہے کہ وہ اس بات سے بھی متفق ہوں کہ میاں صاحب کی روانگی پارٹی کے لیے نقصان کا باعث ہوگی جو اب اندرونی اور بیرونی طور پر اور بھی زیادہ چیلنجز سے دوچار ہوجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ تکرار کے اس لمحے میں کسی حل کا ہونا بہت ضرورت ہے، سیاست میں آخری جواب یا حتمی فتح نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔

پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ میاں صاحب کی گزشتہ تکرار کا انجام یہ نکلا کہ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کی جماعت انتخابات میں ہار گئی۔

مگر یہ 2 فریقین کے درمیان جاری جنگوں کے ایک سلسلے کی ایک کڑی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جنگیں جاری ہیں اور اس وقت تک مزید جنگیں دیکھنے کو ملیں گی اور مزید تنازعات سر اٹھاتے رہیں گے جب تک دونوں فریقین یا ان میں سے کسی ایک کی قوت پوری طرح سے ختم نہیں ہوجاتی۔

میاں صاحب بطور ایک تجربہ کار سیاستدان اور بلاول بھٹو اپنے والد کے پکے شاگرد کے طور پر اس بات سے ضرور باخر ہوں گے۔ انہیں امید رہے گی کہ ان کے نئے مخالف وزیرِاعظم عمران خان جتنا جلدی اس بات کو سمجھ جائیں اتنا ہی اچھا ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینے پر اپنی پوری توانائی خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ کون جیل میں آتا ہے یا کون جاتا ہے۔


یہ مضمون 15 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں