مگر شدت پسندی کی کچھ قوی صورتیں اب بھی چند مسلمان گروہوں کی جانب سے سامنے آتی ہیں، جو کہ دہشگردی کی دیگر صورتوں سے کافی الگ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مذکورہ ریاستوں کی ہی طرح چند مسلمان ریاستیں بھی کمزور گرہوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے والے غالب گروہوں سے متاثر نظر آتی ہیں۔ مگر آزادی، سیکولر حکومتوں کو گرانے، مغربی غلبے کو ختم کرنے اور ایک عالمی حکومت کے قیام کے مقصد کے لیے بھی شدت پسندی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تنظیمی تکثریت بھی نظر آتی ہے، مثلاً جیسے مغرب میں تن تنہا یا چھوٹے گروہ کی صورت میں کارروائی کرنے والوں سے لے کر کہیں تربیت یافتہ شدت پسند گروہ تو کہیں کہیں فوجیں تک بنی نظر آتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ، اس کا مذہب کا اپنے طور پر استعمال کافی نمایاں ہے۔
تیسری بات یہ کہ اس کی عالمی پہنچ وسیع تر ہے، جس میں کئی براعظم بھی شامل ہیں، جہاں اب سفید فام دہشتگردی بھی ان کے قریب پہنچتی نظر آتی ہے۔
چوتھی بات یہ کہ، یہ واحد ہے کہ جو زمینوں کو فتح اور قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ، چند شدت پسند گروہوں کے چند مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات کافی زیادہ مضبوط اور نمایاں ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی بھی میانمار کا مدمقابل نہیں۔ آخری بات یہ کہ اس شدت پسندی کا شکار بڑی حد تک ان کے ہم مذہب ہی ہوتے ہیں۔
تاہم موجودہ وقت میں پھیلنے والی شدت پسندی کی دیگر صورتوں کے برعکس، اس شدت پسندی میں کافی کمی آ رہی ہے جس کی مثال آپ پاکستان اور خطہ لیوانٹ سے شدت پسند عناصر کے خاتمے کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ دیگر اقسام کی شدت پسندیوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ اس بات کو محسوس کرنا ضروری ہے کہ نیوزی لینڈ حملے کے بعد جس غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ شدت پسندی صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔
اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں اور غیر مسلم ملکوں کو اپنے اپنے دہشتگرد گروہوں پر قابو پانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تاہم پاکستان سمیت مسلم ممالک کو بھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف سماجی تعصبات کی وجہ سے مقامی دہشتگردی کو چارہ ملا ہے جبکہ غلط ملکی پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں شدت پسندی کو ہوا ملی۔ کیا ریاست ان دونوں سطح پر شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟ جب تک ریاست ایسا نہیں کرتی تب تک ممکن ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے حالیہ فائدے فقط وقتی ثابت ہوں۔
یہ مضمون 26 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔