لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔
لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔

سانحہ کرائسٹ چرچ ’سفید فام بالادستی‘ اور ’اسلامو فوبیا‘ جیسے شدت پسند رجحانات کے ملاپ کو ظاہر کرتا ہے۔ سفید فام بالادستی کا نظریہ کہتا ہے کہ سفید فام افراد دیگر نسل کے لوگوں سے برتر ہیں لہٰذا انہیں دیگر نسلی گروہوں پر غلبہ حاصل ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ سیاہ فام، ہسپانوی، ایشیائی افراد اور یہودیوں کو بھی ہدف بناتا ہے۔ اسلامو فوبیا مغربی، ہندو، بدھمتی اور یہودی سماجوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کی صورت میں نظر آتا ہے۔

یہ دونوں خیالات کافی پرانے ہیں۔ سفید فام بالادستی تو صدیوں تک مغرب میں ایک باضابطہ نظریہ رہا جس نے کلونلزم، غلامی، نسل کشی اور نازی ازم کی صورت میں ظلم و بربریت سے بھرپور استحصال کی اقسام کو جنم دیا۔ گزشتہ صدی کے دوران اس قسم کی ظالمانہ سوچ کو کنارے سے لگایا جانے لگا۔

استحصالی سوچ کو آہستہ آہستہ کنارے سے لگایا جانے لگا۔ مگر یوں فقط دیگر نسلی گروہوں کے خلاف طاقت کا استعمال کم ہوا ہے جبکہ سماجی و اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے عدم تشددی نسلی غلبہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے، امریکا کا ہی مثال لیجیے جہاں یہ سب قدامت پسندوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ لہٰذا سرمایے اور لیبر کے درمیان منافع کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے کام کی جگہوں پر طبقاتی اقتصادی استحصال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جس کے بعد تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے کمزور نسلی گروہ اور قومی شناخت کے حامل افراد کے خلاف کام کی جگہوں اور اس کے علاوہ بھی معاشرتی لحاظ سے امتیاز نظر آتا ہے۔ مذکورہ دونوں باتوں سے امیر سفید فام افراد کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

قدامت پسند حلقوں میں سماجی تعصب کی صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ معتدل قدامت پسند اس کا مظاہرہ ایسی سماجی و اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے کرتے ہیں جو اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ شدید قدامت پسند نسل پرستی کا نظریہ کھل کر استعمال کرتے ہیں جو کہ اقلیتوں کو عفریت نما ظاہر کرتا ہے اور انہیں دیوار سے لگاتا ہے۔ آخر میں، کنارے سے لگی ظالمانہ سوچ رکھنے والے وہ قدامت پسند ہیں جو اب بھی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے استعمال میں مصروف ہیں، کہ جس کا رواج اب دیگر قدامت پسندوں میں باقی نہیں رہا۔

لہٰذا ان تمام قدامت پسندوں کا مقصد اقلیتوں کو کنارے سے لگائے رکھنے سے بڑھ کر ان کی کھلے عام رسوائی اور الگ رکھنا، اور جسمانی طور پر باہر نکالنا بن جاتا ہے۔ معتدل اور شدید قدامت پسند عام طور پر ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں مگر کنارے سے لگی ظالمانہ سوچ والے قدامت پسندوں کو بہت زیادہ قریب کھڑا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تب بھی شدید قدامت پسندوں کا نسل پرستانہ نظریہ اُن ظالمانہ سوچ کے حامل قدامت پسندوں کی شدت پسندی اور دہشتگردی کا چارہ فراہم کرتا ہے کہ جو مرکزی دھارے کی قدامت پسندی سے نظریاتی نشو و نما حاصل کرتے ہیں۔ مگر سفید فام افراد کے کم عیاں اور شدید طریقوں اور بہت زیادہ پالیسی اختیارات کے سبب عالمی اجارہ داری ہونے کے باعث سفید فام دہشتگردی کو مغرب میں پنپنے کے زیادہ مواقع نہیں مل پاتے۔

سفید فام بالادستی کے اہداف میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے، اصلی باشندے، سیاہ فام، یہودی، ایشیائی، ہسپانوی افراد اور چونکہ سفید فام بالادستی کا سامنا اسلاموفوبیا سے ہوا ہے لہٰذا اب مسلمان بھی نشانے پر ہیں۔ مغربی اسلامو فوبی کی ایک پوری تاریخ ہے جو مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات تک پھیلی ہوئی ہے۔ حالیہ دور میں انقلاب ایران، شدت پسندی اور مغرب کی طرف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت جیسے رجحانات کی وجہ سے ایک بار پھر اسلاموفوبیا کو ہوا ملی ہے۔

مذکورہ رجحانات سے دیگر معاشروں میں بھی پوشیدہ اسلاموفوبیا سے منسوب دہشتگردی کو ہوا ملی ہے، ان میں ہندو، یہودی اور یہاں تک کہ بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت والے معاشرے شامل ہیں۔ مغرب کی ہی طرح، وہاں بھی مقصد کمزور گروہ پر غالب رہنے تک محدود ہے، البتہ ان میں شدت اور طریقہ کار ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں، جن میں ہندوستان اور سری لنکا میں مخصوص حملوں سے لے کر اسرائیلی قبضہ اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ، اس کے علاوہ میانمار میں نسل کشی تک شامل ہے۔

مگر شدت پسندی کی کچھ قوی صورتیں اب بھی چند مسلمان گروہوں کی جانب سے سامنے آتی ہیں، جو کہ دہشگردی کی دیگر صورتوں سے کافی الگ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مذکورہ ریاستوں کی ہی طرح چند مسلمان ریاستیں بھی کمزور گرہوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے والے غالب گروہوں سے متاثر نظر آتی ہیں۔ مگر آزادی، سیکولر حکومتوں کو گرانے، مغربی غلبے کو ختم کرنے اور ایک عالمی حکومت کے قیام کے مقصد کے لیے بھی شدت پسندی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تنظیمی تکثریت بھی نظر آتی ہے، مثلاً جیسے مغرب میں تن تنہا یا چھوٹے گروہ کی صورت میں کارروائی کرنے والوں سے لے کر کہیں تربیت یافتہ شدت پسند گروہ تو کہیں کہیں فوجیں تک بنی نظر آتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ، اس کا مذہب کا اپنے طور پر استعمال کافی نمایاں ہے۔

تیسری بات یہ کہ اس کی عالمی پہنچ وسیع تر ہے، جس میں کئی براعظم بھی شامل ہیں، جہاں اب سفید فام دہشتگردی بھی ان کے قریب پہنچتی نظر آتی ہے۔

چوتھی بات یہ کہ، یہ واحد ہے کہ جو زمینوں کو فتح اور قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ، چند شدت پسند گروہوں کے چند مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات کافی زیادہ مضبوط اور نمایاں ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی بھی میانمار کا مدمقابل نہیں۔ آخری بات یہ کہ اس شدت پسندی کا شکار بڑی حد تک ان کے ہم مذہب ہی ہوتے ہیں۔

تاہم موجودہ وقت میں پھیلنے والی شدت پسندی کی دیگر صورتوں کے برعکس، اس شدت پسندی میں کافی کمی آ رہی ہے جس کی مثال آپ پاکستان اور خطہ لیوانٹ سے شدت پسند عناصر کے خاتمے کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ دیگر اقسام کی شدت پسندیوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ اس بات کو محسوس کرنا ضروری ہے کہ نیوزی لینڈ حملے کے بعد جس غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ شدت پسندی صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔

اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں اور غیر مسلم ملکوں کو اپنے اپنے دہشتگرد گروہوں پر قابو پانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تاہم پاکستان سمیت مسلم ممالک کو بھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف سماجی تعصبات کی وجہ سے مقامی دہشتگردی کو چارہ ملا ہے جبکہ غلط ملکی پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں شدت پسندی کو ہوا ملی۔ کیا ریاست ان دونوں سطح پر شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟ جب تک ریاست ایسا نہیں کرتی تب تک ممکن ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے حالیہ فائدے فقط وقتی ثابت ہوں۔

یہ مضمون 26 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں