امریکی انتہا پسند مسلم انتہا پسندوں سے زیادہ خطرناک

26 جون 2015
دائیں بازو کا ایک انتہاءپسند امریکی نوجوان امریکا کا پرچم نذرِ آتش کررہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
دائیں بازو کا ایک انتہاءپسند امریکی نوجوان امریکا کا پرچم نذرِ آتش کررہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن/نیویارک: نائن الیون کے بعد سے امریکا میں پروان چڑھنے والے انتہاپسندوں نے امریکا میں جہادیوں سے دوگنی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا ہے۔

یہ بات واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک نیو امریکا کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

اس رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء سے سفید فاموں کی بالادستی کے خواہاں افراد، حکومت مخالف جنونیوں اور دیگر غیرمسلم انتہاپسندوں نے 48 افراد کو قتل کیا جبکہ مشتبہ مسلمان جہادیوں نے 26 افراد ہلاک کیے۔

یہ رپورٹ، جسے واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز دونوں نے ہی اجاگر کیا تھا، کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے جنوبی کیرولینا میں ایک چرچ پر حملے میں 9 افریقی نژاد امریکیوں کا قتل ہلاکت خیز حملوں کی محض تازہ ترین کڑی تھی۔

تمام حملہ آور امریکی تھے، ان میں سے زیادہ تر وہیں پیدا ہوئے اور وہیں پر ان کی پرورش بھی ہوئی۔

تھنک ٹینک نیو امریکا نے امریکا میں پروان چڑھنے والے ان انتہاءپسندوں کی شناخت کی ہے، جنہوں نفرت انگیز نسل پرستی اور حکومت دشمنی کو فروغ دیا ہے۔

ان انتہاء پسندوں کا نشانہ بننے والوں میں پولیس افسران، نسلی یا مذہبی اقلیتوں کے لوگ اور عام شہری شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے غیرمسلم انتہاپسندوں نے 19 حملے کیے، لیکن ان کا بطور دہشت گرد حملے کے اندراج نہیں کیا گیا۔ جبکہ امریکا میں مقیم مسلمان عسکریت پسندوں نے پچھلے چودہ برسوں کے دوران سات حملے کیے۔

تھنک ٹینک کے سرویئر نے ملک بھر میں 382 پولیس اور شیریف کے محکموں سے کہا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں پرتشدد انتہاپسندی کے تین سب سے بڑے خطرات کی درجہ بندی کریں۔

تقریباً 74 فیصد نے حکومت مخالف تشدد جبکہ 39 فیصد نے ’’القاعدہ کے اشارے‘‘ پر تشدد کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔

واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے چارلس کرزمین نے کہا ’’ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہم سے کہنا ہے کہ مسلمان انتہاپسندوں سے اس قدر خطرہ نہیں ہیں، جس قدر کہ دائیں بازو کے انتہاپسندوں سے خطرہ ہے۔‘‘

دہشت گردی اور ملکی سلامتی کے موضوع پر چارلس کرز مین کی ایک اسٹڈی ٹرائی اینگل سینٹر اور پولیس ایگزیکٹیو ریسرچ فورم کی جانب سے شایع کی گئی ہے۔

یونیورسٹی آف میساچوسیٹس لوویل پر دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے جون ہورگن کا کہنا ہے کہ عوامی تصورات اور حقیقی کیسز میں عدم توازن اسکالرز پر مزید عیاں ہوگیا ہے۔

جون ہورگن نے کہا کہ ’’یہ تصور کہ امریکا کو جہادی دہشت گردی سے بے انتہاء خطرات لاحق ہیں، اب بھی مقبول ہے۔اور یہ بھی یقین موجود ہے کہ دائیں بازو اور حکومت مخالف تشدد کے خطرات کو کم کردیا گیا ہے۔‘‘

نیویارک ٹائمز نے نشاندہی کی کہ کولوریڈو کے سینما اور 2012ء میں کنکٹی کٹ ایلیمنٹری اسکول پر حملے کی طرز کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کو اس اسٹڈی میں شامل نہیں کیا گیا، ان کا کوئی نظریاتی مقصد واضح نہیں تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بعض مسلمان وکلاء نے شکایت کی کہ جب کسی حملے کا مرتکب مسلمان نہیں ہوتا، تو نیوز میڈیا کے مبصر تیزی کے ساتھ ذہنی بیماریوں کے سوال پر توجہ مرکوز کردیتے ہیں۔

بوسٹن میں طویل عرصے سے مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والے ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالقادر کہتے ہیں کہ غیرمسلموں کی شناخت ہوتے ہی انہیں نفسیاتی مریضوں کا درجہ دے دیا جاتا ہے، جبکہ اگر حملہ آور مسلمان ہوتو فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے لازماً اپنے مذہب کی وجہ سے ہی ایسا کیا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں