الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں مجموعی طور پر 81 لاکھ سے زائد رائے دہندگان ہیں۔ یہاں 2 لاکھ سے کم ووٹروں کی بھی ایک نشست ہے، اور 5 لاکھ سے زیادہ پر بھی ایک نشست! اگر 2 لاکھ ووٹروں پر ایک نشست کا حساب لگائیں تو کراچی کی قومی اسمبلی کی کم سے کم 35 سے 40 نشستیں ہونی چاہیے۔
موجودہ ’بلدیہ کراچی‘ کی بات کریں، تو وہ ’حکومت‘ کم اور ’کٹھ پتلی‘ زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے نیچے 6 ضلعی انتظامی اداروں کو تھوڑے بہت جتنے بھی اختیارات حاصل ہیں، کیا وہ ان سے بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟ شاید اس میں بہت ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح تک نہ صرف منتقل کیے جائیں، بلکہ بلدیاتی نمائندوں کی فعالیت بھی یقینی بنائی جائے، ان کے احتساب یا غیر فعالیت پر شکایت اور ان کے ازالے کا بھی کوئی ذریعہ قائم ہو۔
جہاں تک کراچی کی مزید تقسیم کی بات ہے، تو ہمارے خیال میں کسی بھی صوبے، ضلع، ڈویژن یا شہر کی تقسیم اگر عوامی مطالبے یا بہتری کے لیے کی جاتی ہے، تو اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔ کراچی کے بہتر انتظام اور سہولیات کی فراہمی کی خاطر اس کے بھی 2 نہیں 4 میئر لگائے جاسکتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختیارات اور کارکردگی کی موجودہ صورت حال میں کیا واقعی اس ’تقسیم‘ سے اس شہر کے بدترین مصائب اور مسائل حل ہوسکتے ہیں؟
پھر غیر جمہوری سوچ اور فکر کے تحت کی جانے والی کوئی بھی تقسیم شہر کے مسائل تو کیا حل کرے گی، الٹا سیاسی بے چینی میں اضافے کا باعث ہوگی، جو یقیناً کسی بھی طرح نیک شگون نہیں!