دنیا میں انتظامی ’تقسیم‘ کا تصور مثبت ہے۔ عالمی سطح پر تقسیم کی اگر کوئی بدصورت شکلیں ہیں، تو ماضی کے مشرقی اور مغربی جرمنی اور حال میں شمالی اور جنوبی کوریا سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ریاست کے اندر انتظامی سطح پر صوبے، ضلع یا کسی اور انتظامی اکائی کا بٹوارا شاید ہی اس طرح متنازع ہوتا ہو، جس طرح ہمارے ہاں ہے۔

بالخصوص صوبہ سندھ میں کسی دوسرے صوبے کا قیام اس قدر حساس مسئلہ ہے کہ اس بات پر امن و امان کے سنگین مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی صورت ’سندھ کی تقسیم‘ پر انتہائی عمل کے عندیے دیے جاتے ہیں، پھر جواب در جواب دل آزاریوں اور نفرت انگیز رویوں کا افسوسناک اظہار ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ’ذرائع‘ سے ایک خبر بہت تیزی سے پھیلی، جس میں ’بلدیہ کراچی‘ کی تقسیم کے مجوزہ منصوبے کا ذکر تھا، کہ کراچی ڈویژن کے ضلع کورنگی اور ضلع وسطی کو باقی شہر سے الگ کرکے متوازی ’میٹروپولیٹن کارپوریشن‘ بنا دیا جائے گا، جس کے بعد کراچی کے ایک نہیں 2 میئر ہوں گے۔

اس سے پہلے کراچی کو الگ انتظامی اکائی یا ’کراچی صوبے‘ کی بات تو بہت کہی اور سنی گئی تھی، لیکن پہلی بار کراچی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا ذکر ہوا۔ پھر وہی ’تقسیم‘ سے جُڑی ہوئی ’تلخیاں‘ ابھریں۔ اس مجوزہ تقسیم پر ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ پر بہت زیادہ ردِعمل کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔

یہ بات درست ہے کہ کراچی کی آبادی دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہے اور اس کے وسائل آبادی کے حساب سے کئی گنا کم ہیں۔ بقول سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کے کہ مردم شماری میں کم گنے جانے کے سبب دیگر شہروں میں ایک شہری کے لیے جو سہولیات فراہم کی جائیں گی، وہی سہولت کراچی میں ایک کے بجائے 4 شہریوں میں تقسیم ہوگی۔ اس سے کراچی کی کسمپرسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے!

ہمیں پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کراچی کی ’بلدیہ عظمیٰ‘ کے ہوتے ہوئے بھی کراچی میں 6 مختلف ’کنٹونمنٹس‘ بھی مکمل بلدیاتی اختیارات لیے ہوئے ہیں اور ان پر ’بلدیہ کراچی‘ کا کوئی اختیار نہیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت کراچی کو 209 شہری اور 38 ’دیہی‘ یونین کونسل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جی ہاں! کراچی میں بھی 38 ’یوسیز‘ کو نہ صرف دیہات قرار دیا گیا ہے، بلکہ اس ’دیہی کراچی‘ کو ’بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ کے بجائے ضلعی کونسل‘ (کے ڈی سی) چلاتی ہے۔

اس کے بعد ’حکومتِ سندھ‘ کے ماتحت غیر منتخب ادارے بھی بلدیاتی اختیارات میں حصے دار ہیں، جن میں لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (LDA)، ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (MDA) اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (KDA) نمایاں ہیں۔ شہر میں فراہمی و نکاسی آب کا ذمہ دار ادارہ ’کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ‘ بھی شہری انتظامیہ کے اختیار سے باہر ہے۔

خالص بلدیاتی شعبوں جن میں صفائی ستھرائی کا محکمہ ’سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ‘ بلدیہ کراچی سے ماورا ہے، تعمیرات کا محکمہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘، شہری محصول کا ادارہ ’سندھ بورڈ آف ریونیو‘ اور ٹرانسپورٹ کا شعبہ ’سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی‘، سندھ حکومت کے پاس ہے اور ان پر ’بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ کا کوئی اختیار نہیں ہے، جب عالم یہ ہو تو ’پولیس‘ پر بلدیاتی اختیار کا سوال ہی احمقانہ لگتا ہے، وہ تو ہے ہی صوبائی حکومت کے پاس!

یوں ملک کو ریوینو کا بڑا حصہ کما کر دینے والے کراچی کو مرکزی طور پر 17 مختلف ادارے اور محکمے چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ڈی ایچ اے‘، ’پاکستان ریلوے‘ اور ’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ بھی شہر کے وسیع علاقوں میں اختیارات لیے ہوئے ہیں۔

شہر کے 6 اضلاع (شرقی، غربی، وسطی، جنوبی، کورنگی اور ملیر) کو اپنے علاقوں میں صحت، تعلیم اور پانی نکاسی آب اور گلی کوچوں وغیرہ کا انتظام دیا گیا ہے۔ 209 یوسیز پر قائم ان 6 ضلعوں کی انتظامیہ ’ڈی ایم سی‘ کہنے کو تو ’بلدیہ کراچی‘ یا ’کے ایم سی‘ کے نیچے ہیں، لیکن یہ خودمختار ادارے ہیں۔ رہ گئی ’بلدیہ عظمیٰ‘ تو اس کے پاس ’خانہ پُری‘ کو قومی دنوں کا جشن اور غیر ملکی مہمانوں کے استقبال جیسے ’اہم‘ امور باقی رہتے ہیں۔

سال 19ء-2018ء کے لیے ’بلدیہ کراچی‘ نے 27 ارب 16 کروڑ روپے کا بجٹ منظور کیا، جب کہ حکومت سندھ نے 19ء-2018ء کے بجٹ میں ’شہری آبادی‘ کے لیے 7 ارب سے 14 ارب مختص کیے، جس میں ظاہر ہے دیگر شہری علاقے بھی شامل ہیں۔ (پورے سال کے لیے 27 ارب کی رقم دیکھ کر ہمیں اچانک سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان کو ملنے والا 29 ارب روپے کا خصوصی پیکیج یاد آگیا، جو پرویز مشرف نے اپنی اتحادی جماعت کے ’شدید تحفظات‘ کے باوجود جاری کیا تھا۔)

کراچی کے لیے 2016ء میں حکومت سندھ نے معمول کے بجٹ کے علاوہ 10 ارب روپے کا اضافی پیکیج بھی دیا، جس میں فراہمی آب کے منصوبے ’کے فور‘ کے لیے 6 ارب روپے، جب کہ سڑکوں کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں شاہین کمپلیکس پر فلائی اوور، ریجنٹ پلازہ شاہراہِ فیصل انڈر پاس، ناتھا خان پل کے پاس یوٹرن، اسٹارگیٹ انڈر پاس اور سب میرین چورنگی انڈر پاس کی تعمیر وغیرہ کے منصوبے تھے۔ ساتھ ہی طارق روڈ، شہید ملت روڈ، یونیورسٹی روڈ ، حب ریور روڈ کی تعمیرِ نو اور میٹروپول تا اسٹار گیٹ شاہراہ فیصل کی کشادگی اور تعمیر و مرمت بھی ہونا تھی۔

سڑکوں کے بہت سے منصوبے دکھائی بھی دیے، لیکن دیگر امور کے لیے یا تو رقم ٹھیک سے خرچ نہیں ہوئی یا پھر بے حد ناکافی تھی، کیونکہ پانی اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے مسائل پہلے کی طرح منہ زور ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق موجودہ ’بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ کا بجٹ نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور کی شہری حکومتوں سے لگ بھگ 10 گنا تک کم ہے، (جس کا بیشتر حصہ تنخواہوں کی نذر ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں) اگرچہ آج بلدیہ کے پاس کنٹومنٹس کے علاوہ بلدیاتی انتظام و انصرام کے 11 اداروں کا اختیار موجود نہیں، لیکن اس صورت حال کے باوجود کراچی کے مسئلے کا حل اس کی مزید تقسیم میں دیکھا جا رہا ہے، جس کے شدید سیاسی تحفظات بھی سامنے آئے ہیں۔

کراچی کی مجوزہ تقسیم پر ہمیں گزشتہ انتخابات سے قبل یہاں کی انتخابی حلقہ بندیاں یاد آگئیں۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے 242 میں رائے دہندگان ایک لاکھ 83 ہزار 373 ہیں، جب کہ حلقہ 247 میں یہ شمار 5 لاکھ 43 ہزار 964 ہے! اس رویے کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی ’غیر جمہوری‘ کہا جاسکتا ہے، کیونکہ مردم شماری میں کم شمار ہونا تو الگ مسئلہ ہے، لیکن ایک ہی شہر میں ووٹروں کا اتنا تفاوت کیا معنی رکھتا ہے؟

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں مجموعی طور پر 81 لاکھ سے زائد رائے دہندگان ہیں۔ یہاں 2 لاکھ سے کم ووٹروں کی بھی ایک نشست ہے، اور 5 لاکھ سے زیادہ پر بھی ایک نشست! اگر 2 لاکھ ووٹروں پر ایک نشست کا حساب لگائیں تو کراچی کی قومی اسمبلی کی کم سے کم 35 سے 40 نشستیں ہونی چاہیے۔

موجودہ ’بلدیہ کراچی‘ کی بات کریں، تو وہ ’حکومت‘ کم اور ’کٹھ پتلی‘ زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے نیچے 6 ضلعی انتظامی اداروں کو تھوڑے بہت جتنے بھی اختیارات حاصل ہیں، کیا وہ ان سے بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟ شاید اس میں بہت ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح تک نہ صرف منتقل کیے جائیں، بلکہ بلدیاتی نمائندوں کی فعالیت بھی یقینی بنائی جائے، ان کے احتساب یا غیر فعالیت پر شکایت اور ان کے ازالے کا بھی کوئی ذریعہ قائم ہو۔

جہاں تک کراچی کی مزید تقسیم کی بات ہے، تو ہمارے خیال میں کسی بھی صوبے، ضلع، ڈویژن یا شہر کی تقسیم اگر عوامی مطالبے یا بہتری کے لیے کی جاتی ہے، تو اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔ کراچی کے بہتر انتظام اور سہولیات کی فراہمی کی خاطر اس کے بھی 2 نہیں 4 میئر لگائے جاسکتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختیارات اور کارکردگی کی موجودہ صورت حال میں کیا واقعی اس ’تقسیم‘ سے اس شہر کے بدترین مصائب اور مسائل حل ہوسکتے ہیں؟

پھر غیر جمہوری سوچ اور فکر کے تحت کی جانے والی کوئی بھی تقسیم شہر کے مسائل تو کیا حل کرے گی، الٹا سیاسی بے چینی میں اضافے کا باعث ہوگی، جو یقیناً کسی بھی طرح نیک شگون نہیں!

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 29, 2019 07:24pm
بہت اچھا اور بروقت۔۔۔۔۔ براہ مہربانی کراچی میں ٹائون نظام دوبارہ نافذ کرنے پر بھی غور کیا جائے، شاید اس طرح پی پی کا میئر آجائے۔ تاہم ٹائون 18 کے بجائے 30 سے 35 بنائے جائیں۔ کنٹونمٹس والے فائدہ تو پورے کراچی سے اٹھاتے ہیں مگر باقی ناقابل اشاعت ہوگا۔ فعال اور بااختیار مئیر ہونا چاہیے۔ ڈی ایم سی میں تو پارکنگ مافیا نے جو ہلڑ مچائی ہوئی ہیں گزارش ہے کہ کوئی اس پر بھی بات کریں۔ یہ کراچی میں اتنے رپورٹرز کس کام کے ہیں، ہرسڑک پر لوٹ مار کی جاتی ہے۔ اگر یہ رقم حکومت کو جاتی ہو تو میں موٹر سائیکل کے 20 روپے پارکنگ فیس دینے کے لیے تیار ہوں مگر کوئی ان کو نکیل ڈالنے والا نہیں۔