خلا پر انسانی سفر کا خواب اور انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن
تاریخ گواہ ہے کہ ہر باصلاحیت انسان کو ہر دور میں اپنا آپ منوانے کے لیے سخت مشکلات برداشت کرنا پڑیں، جن نامور شخصیات کی وفات کے بعد دنیا ان کی صلاحیتوں کا معترف اور دیوانی رہی انھیں اپنی جدوجہد کے ابتدائی ادوار میں شدید تنقید اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
مخالفتوں اور نفرتوں کے طوفان میں بھی یہ عظیم لوگ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے بلکہ تنقید اور رکاوٹوں نے ان کے عزائم مزید بلند کردیے کیونکہ رکاوٹیں وہیں کھڑی کی جاتی ہیں جہاں کسی کے کہیں پہنچ جانے کا ڈر ہو۔
ایسی ہی ایک عظیم ہستی رابرٹ ایچ گوڈارڈ بھی تھے، پاکستان میں شاید گنے چنے افراد ہی گوڈارڈ اور ان کے کارناموں کے بارے میں جانتے ہو۔ 20 ویں صدی کے اس عظیم سائنسدان اور مؤجد جسے دنیا "فادر آف ماڈرن راکٹری " کے نام سے جانتی ہے، آج کی سائنس کے اہم ستارے ہیں۔
آج دنیا مریخ کے بعد نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر کمندیں ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اس کا صحرا بھی گوڈارڈ کو جاتا ہے، کیوں کہ ابتدا میں گوڈارڈ ہی تھے جنھوں نے ایک ایسے راکٹ کا تصور پیش کیا تھا جو چاند تک پہنچ سکے اور اس حوالے سے کئی کامیاب تجربات بھی کیے مگر بدقسمتی سے ان کی زندگی میں ان کے کام کو اہمیت نہیں دی گئی اور کئی مواقع پر باقاعدہ انھیں تضہیک کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن عزم کا پکا یہ شخص مرتے دم تک جدید راکٹ کے ڈیزائن پر کام کرتا رہا۔
رابرٹ ایچ گوڈارڈ 5 اکتوبر 1882 کو امریکی ریاست میسا چوسسٹس کے چھوٹے سے شہر وورکیسٹر میں پیدا ہوئے، وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، انھیں بچپن سے والدین کی بھرپور توجہ اور محبت میسر آئی، ان کے والد ڈین فورڈ گوڈارڈ نے فلکیات میں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں دوربین خرید کر دی اور انھیں اکثر ایسے دور دراز مقامات پر لیکر جاتے تھے جہاں وہ رات گئے تک اپنی دوربین سے چاند ستاروں کا مشاہدہ کیا کرتے۔