فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
ہمدرد ایک وقف کمپنی ہے اور اس کے قوانین کے تحت 85 فیصد منافع ہمدرد نیشنل فاﺅنڈیشن کو منتقل ہوتا ہے جو ایک تعلیمی فلاحی ادارہ ہے۔
یہ ادارہ مختلف ادارے جیسے جامعہ ہمدرد دہلی میں چلا رہا ہے جو کہ دہلی میں کام کرنے والی واحد نجی میڈیکل کالج ہے اور اسے مستند ادارہ مانا جاتا ہے، اور یہی خاندان تنازع کی مرکزی وجہ ہے۔
یہ جنگ بھارتی سپریم کورٹ تک پہنچی جس نے 3 اپریل کو اپنے فیصلے میں عارضی طور پر کمپنی کا انتظام حماد احمد کو سونپنے سے انکار کیا۔
پروڈکشن روکنے پر کوئی بیان نہیں آیا
روح افزا کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس ستمبر 2008 سے کام نہیں کررہے تھے اور حال ہی میں فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی اور عندیہ دیا کہ شربت بہت جلد مارکیٹ میں واپس آجائے گا۔
اس بارے میں جب مفتی شوکت سے پوچھا گیا کہ پروڈکشن کیوں روکی گئی اور کب تک یہ سلسلہ چلے گا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کیا جبکہ چیف متولی عبدالمجید کالز اور میسجز کے جواب نہیں دیتے۔
ذرائع کے مطابق روح افزا کی پروڈکشن رمضان میں مسلمانوں کے دباﺅ پر شروع کی گئی اور ایسا نہیں کہ قانونی تنازع کا کوئی حل نکل آیا۔ ایسی بھی افواہیں پھیل یتھیں کہ روح افزا کو ختم کیا جارہا ہے۔
پاکستان کو فائدہ
ہمدرد کے بانی کے چھوٹے بیٹے حکم محمد سعید نے پاکستان ہجرت کرکے ہمدرد لیبارٹریز وقف پاکستان کی بنیاد پاکستان کے قیام کے فوری بعد رکھی تھی۔
بھارت میں ہمدرد کی وراثت کی جنگ کا بلاواسطہ فائدہ ہمدرد پاکستان کو ہوا کیونکہ بھارت میں پاکستان سے برآمد ہونے والے روح افزا کی فروخت بڑھ گئی ہے۔
اگرچہ یہ بھی دکانوں پر دستیاب نہیں مگر پاکستان کا تیار کردہ شربت 375 روپے فی بوتل فروخت ہورہا ہے جبکہ غازی آباد بھارت میں تیار ہونے والے شربت کی قیمت 145 روپے ہے۔
پاکستان میں ہمدرد کی انتظامیہ نے بھارت روح افزا بھجوانے کے لیے مدد کی پیشکش بھی کی مگر اس کا انحصار بھارتی حکومت کی منظوری پر ہوگا۔
ہمدرد بھارت کا کاروبار اور آمدنی بڑھانے کا منصوبہ تنازع کے باعث ایک جگہ تھم چکا ہے جبکہ ہمدرد پاکستان تیزی سے توسیع پارہی ہے جس نے بنگلہ دیش میں پروڈکشن لائسنس حاصل کیا جبکہ عالمی سطح پر بھی روح افزا کی برآمد میں اسے بالادستی حاصل ہے۔
یہاں تک کہ اس نے پاکستان میں روح افزا کا کاربونیٹ ورژن روح افزا گو بھی متعارف کرایا۔