وہ کیوں تنگ آچکے ہیں؟ قبائلی اضلاع میں کہیں بھی ظاہری طور پر ترقیاتی سرگرمیاں اور یونیورسٹیوں یا پیشہ ورانہ تعلیم دینے والے کالجوں، صنعتی اسٹیٹ یا نئے ٹاؤن شپس جیسی پیش قدمیاں نظر نہیں آتیں۔ کلیئر کرائے گئے علاقوں کا الحاق کیا جانے باقی ہے۔ ٹارگیٹ کلنگ کا مکمل خاتمہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ جبکہ امن کمیٹیاں اور وہ شدت پسند جنہوں نے ہتھیار ڈالے انہیں شدت پسندی کی واپسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لوگ پرانے وقتوں کی طرف لوٹنے سے خوفزہ ہیں اس لیے ان کے گروہ کے گروہ پی ٹی ایم قیادت کا رخ کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی کے ساتھ پی ٹی ایم اپنے مطالبات کی وجہ سے حکومت کی مخالف صفوں میں کھڑی ہے اور ان تمام مطالبات کا تعلق سیکیورٹی سے ہے۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خوش ہیں کوئی بھی انہیں میگا پروجیکٹ کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہا، وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ دورے کے موقعے پر ٹال میر علی روڈ منصوبے کا اعلان کیا حالانکہ اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا۔
اس علاقے میں شدت پسندی سے چھٹکارہ بڑی تکالیف اور قربانی کے بعد نصیب ہوا ہے، اور ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانا غیرمعقول عمل ہوگا جو ہمیں ان تاریک وقتوں کی طرف دھکیل سکتا ہو۔ باکا خیل کیمپ میں موجود نقل مکانی کرنے والے افراد اور افغانستان میں پھنسے افراد کو فوری طور پر دوبارہ آباد کیے جانے کی ضرورت ہے۔ نئے منصوبوں کا محور ترقی ہونا چاہیے۔ جب تک لوگ برسر روزگار نہیں ہوجاتے تب تک مایوسی میں ذرا بھی کمی نہیں آئے گی اور ایک چھوٹا سا واقعہ بھی بڑھ کر قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون 11 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔