لکھاری پشاور میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری پشاور میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔

حال ہی میں وزیرِاعظم عمران خان نے سابقہ قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس اسکیم متعارف کروائی۔ چونکہ ان علاقوں میں کوئی ایک اچھا ہسپتال نہیں اور ڈاکٹرز مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے انہیں بنوں یا پشاور جاکر علاج کروانے کا کہتے ہیں لہٰذا ان کا یہ اقدام دل کو چُھو لینے والا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت یا رہنما نے فاٹا کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ عمران خان وہ پہلے وزیرِاعظم ہیں جنہوں نے قبائلی علاقوں پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ ان کے عزم کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی انہوں نے سابقہ فاٹا کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے دی۔ انہوں نے وہاں کے کئی اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کیں اور میران شاہ کا دورہ بھی کیا۔ پہلی بار قبائلی عوام نے خود کو ملک کے دیگر علاقوں جتنی توجہ کا حامل پایا۔

سال 2018ء قبائلی عوام کو تبدیلی کے سال کے طور پر یاد رہے گا کیونکہ اسی سال انہیں آئین میں مساوی حقوق دیے گئے۔ کسی بھی حکومت نے خیبر پختونخواہ (کے پی) کو وفاقی حکومت میں اتنا شیئر نہیں دیا ہے، لہٰذا عمران خان کسی نہ کسی صورت کے پی کے عوام کے دل چھوتے نظر آتے ہیں۔

مگر یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ قبائلی عوام کو فوائد پہنچانے کے لیے وزیرِاعظم کے عزم پر عمل نہیں ہو رہا۔ جب ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسزیشن اینڈ ریفارمز یا فاٹا پر بنی ٹاسک فورس کی تجاویز پر عمل درآمد کروانے والے افراد اپنے کام میں نااہلی یا کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وزیرِاعظم کی کوششیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) وہاں کے ’ملک‘ حضرات کو فاٹا انضمام سے متعلق آئینی ترامیم کے خلاف اور اس کے بجائے ایک الگ صوبے کا مطالبہ کرنے کے لیے اُکسا رہے تھے۔ انہوں نے عوام کو آزاد پولیس کے خلاف بڑھکایا اور انہیں اکسایا کہ وہ لیویز کو ڈی سی کے ماتحت لانے کی تجویز رکھیں۔ کسی نہ کسی صورت میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کو دوبارہ بحال کرنے اور جرگہ نظام کو قائم رکھنے کے لیے ڈی سیز نے ملاقاتیں بھی کیں۔

اصلاحات کو لانا آسان نہیں تھا۔ حکومت کو ان اصلاحات کو لانے پر مجبور کرنے کے لیے غیر معمولی جدوجہد کی گئی۔ اب جبکہ وفاقی حکومت سابقہ فاٹا کے عوام کی خواہشات کے مطابق اپنا کام کرچکی ہے اور آئین میں ترمیم کردی گئی ہے، ایسے میں اصلاحات کو عملی شکل دینے میں صوبائی حکومت کی جانب سے سستی کا مظاہرہ بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ بلکہ اصلاحات کو ختم کرنے کی سازش کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کو قبائلی علاقوں کے لیے وفاق سے اس 100 ارب روپے کی رقم کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے جسے دینے کا وفاق نے وعدہ کیا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے اگر صوبائی حکومت پہلے سے متخص کردہ رقم میں سے ہونے والے اخراجات کو پیش کرسکتی ہو۔

امید ہے کہ آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کے پی کی رخصتی جیسے اہم معاملات سمیت تمام تنازعات حل کیے جا رہے ہوں گے کیونکہ وزیرِاعلیٰ اور گورنر کے درمیان تکرار کی افواہوں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ 9 فروری کو کے پی نے قبائلی اضلاع میں سیشن کورٹس کے قیام کی منظوری اور کچھ 100 اسامایوں کی منظوری دی۔ لنڈی کوتل میں کابینہ اجلاس اور قبائلی علاقوں میں وزرا کے دورے ویسے تو دکھاوی اقدامات ہیں لیکن ایک درست سمت کی جانب گامزن۔

سابقہ فاٹا کے معاشرتی اشاریے ملک میں سب سے بدتر تھے۔ تقریباً 70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ خواندگی کی شرح 30 فیصد سے بھی کم جبکہ اس میں خواتین کی شرح 10 فیصد سے بھی نیچے ہے۔ پاکستان میں بھاری غیر ملکی سرمایہ کاریاں آنے والی ہیں لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی نوجوان خود کو ملنے والے اس موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے۔ انہیں چوکیداروں اور ڈرائیوروں کے علاوہ دیگر ملازمتوں کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم اور تربیتی کورس کروائے جائیں۔ اس کام کے لیے تعلیم کے میدان میں مہارت رکھنے والے نامور اداروں سے مدد طلب کی جاسکتی ہے، بلکہ کی جانی چاہیے۔

قبائلی علاقوں میں تیز رفتار ترقی کی وزیرِاعظم کی خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کو برق رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔

ابتدائی پلان کے مطابق 22 گریڈ کے ایک سینئر افسر کو ٹرائبل ایریاز ڈیولپمنٹ کا چیف ایگزیکیٹو مقرر کیا جائے جو براہِ راست وزیرِاعلیٰ کو جوابدہ ہو اور قبائلی اضلاع میں تمام تر ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی کرے۔

اس مقصد کے لیے فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر اور وسائل کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں قائم عارضی نقل مکانی کرنے والے افراد سے متعلق سیکریٹریٹ کو مزید مستحکم اور اسے پشاور منتقل کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ اسے وزیرِاعلی کے ماتحت بنایا جائے۔

ریلیف اور بحالی کی سرگرمیاں نامناسب ہیں اور ان پر نگرانی درکار ہے۔

طورخم بارڈر کراسنگ کو 24 گھنٹے کھلے رکھنے کے فیصلے میں غلام خان اور حسب امکان چمن کراسنگز کو بھی شامل کیا جائے، ساتھ ہی ساتھ سرحد پار نقل و حرکت میں سہولت بھی فراہم کی جائے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر کراسنگز کی غیر اعلانیہ بندش سے کاروبار متاثر ہوا ہے، لہٰذا انہیں یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ سرحدوں کی غیر اعلانیہ بندش نہیں ہوگی۔

قبائلی علاقوں کے عوام کو غیر مؤثر صلاحیت اور نااہلی کے باعث مزید دشواری سے دوچار نہ کیا جائے۔

انہیں گرم جوشی کے ساتھ گلے لگایا جائے اور یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ وہ پاکستانی خاندان کا ایک اہم فرد ہیں۔ اگرچہ ان کی شکایات کو دُور کیا جانا ابھی باقی ہے لیکن ان کی جانب وزیرِاعظم نے جس فکر مندی کا مظاہرہ کیا وہ دل و دماغ جیتنے کے لیے کافی ہیں۔


یہ مضمون 21 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں