لکھاری پشاور میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری پشاور میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔

شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ نے ایک سرکیولر جاری کیا جس میں الوارا کے رہائشیوں (وزیر قبیلے) کو مطلع کیا گیا کہ وہ علاقہ خالی کردیں تا کہ یہاں سے شدت پسندوں کا صفایا کیا جاسکے اور اس علاقے کو باقی ضلع جتنا ہی محفوظ بنایا جاسکے۔

بعدازاں عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کو دوبارہ یہاں بسایا جائے گا، ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوگا اور سرحد پر خاردار تاریں لگانے کے کام میں تیزی لائی جائے گی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ وزیر قبیلہ بارڈر سے ملحقہ علاقے میں رہتا ہے جہاں حدبندی واضح انداز میں نہیں کی گئی ہے۔

بہت سے لوگ قبائل کو حریف کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ اس حقیقت کی ستائش نہیں کرتے کہ انہوں نے ہمیشہ غیر مشروط طور پر شدت پسندوں کے خلاف حکومتی پالیسیوں کی حمایت کی ہے۔ اپنے پاس اسلحہ اور گولابارود دستیاب ہونے کے باوجود بھی انہوں نے کبھی بھی حکومتی احکامات کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ مران شاہ اور میر علی جیسے کثیر آبادی والے علاقوں کے رہائشیوں نے ایک لمحے کے نوٹس پر علاقہ خالی کردیا اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ پیچھے ہی چھوڑ کر چل دیے۔ اس کے باوجود بھی کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ فوج نے اس خام خیالی کا قلع و قمع کردیا ہے کہ قبائل ناقابل شکست ہیں۔ ملک کے لیے ایک بار پھر جرات مند قدم اٹھانے پر عزت افزائی کے بجائے انہیں مغلوب حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

شدت پسندی اور ضرب عضبِ، نقل مکانی کرنے والے افراد کی تکالیف، اور آپریشن کے بعد ان افراد کی طے شدہ بحالی عمل پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ برسوں پر محیط تنازع اور تلافی میں کی جانے والی بے ترتیب تاخیروں سے مرتب ہونے والے اثرات کا نتیجہ ہے جس نے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے لیے وسیع پیمانے پر حمایت کی راہ ہموار کی۔

اب جبکہ ریاست آپریشن کے ایک نئے اور شاید آخری مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، ایسے میں ریاست کو خاص طو پر محتاط رہنا ہوگا۔ الوارا کے وزیروں کے علاوہ سرحد پار افغان زمین پر 4 اضلاع بھی وزیروں کے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اس سے پہلے اتنے پستی کا شکار نہیں رہے جتنا کہ آج ہیں اور حسبِ توقع، بارڈر پر خاردار لگانے کے کام میں مصروف فوجی اہلکاروں پر حملہ کرکے انہوں نے شر انگیزی پیدا کی۔

وزیر ایک بڑا قبیلہ ہے۔ حالیہ خیسورہ واقعے پر وزیر گرینڈ جرگہ علی وزیر اور گل عالم، جو پی ٹی ایم رہنما ہیں، کے زیر قیادت متحرک ہوا۔ نہ صرف وزیر عمائد نے ان کی حمایت کی، بلکہ وہ افراد جنہوں نے واقعے سے انکار کیا تھا انہیں جرگے کے سامنے پیش ہونا پڑا اور معافی طلب کرنی پڑی۔ شکر ہے کہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا گیا اور مسئلہ معاملہ فہمی کے ذریعے نمٹا گیا۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ پرانے ملک حضرات جا چکے ہیں اور ان کی جگہ نئی قیادت نے لی ہے جو زیادہ مصلحت آمیز رویہ نہیں رکھتی۔

بڑھتی مایوسی کے ساتھ ٹارگیٹ کلنگ اور ریموٹ کنٹرول دھماکوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے۔ مقامی آبادی غیر مسلح ہے اس لیے وہ خود کو کسی قسم کی ذمہ داری سے باآسانی آزاد کردیتی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کس طرح یہ دہشتگرد علاقوں کے اندر داخل ہوپاتے اور اپنے پیچھے کوئی سراغ چھوڑے بغیر چلے جاتے ہیں۔ اب تو جیسے اس مشکل حالات میں روشنی کی آخری لو بھی بجھتی نظر آتی ہے۔

لوگوں کی امیدیں بھی کافی مدھم ہوچکی ہیں۔ بڑے پیمانے پر اپنا بہت کچھ کھونے کے بعد اب انہیں حکومت پر اپنے اس اعتماد میں کمی آ رہی ہے کہ یہ حکومت قیام امن کو ممکن بنا سکے گی، اس قوم پر اس بھروسے میں کمی آ رہی ہے کہ یہ ان کی قربانیوں کو تسلیم کرے گی، انضمام اور اصلاحات سے ان کا بھروسہ اٹھ رہا ہے کہ یہ ان کے لیے ترقی کا باعث بنیں گی، بحالی اور تلافی کے حوالے سے وعدہ شدہ فنڈز کی باتوں پر یقین کم ہو رہا ہے کہ یہ ان کی زندگیوں کی از سر نو تعمیر میں مدد کریں گے۔ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کی خلیج وسیع ہوئی ہے۔ 14 اپریل کو میران شاہ میں ہونے والا پی ٹی ایم کا ایک بڑا اور منظم جلسہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ لوگ حکومت پر اعتماد کھو رہے ہیں اور انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ گزشتہ سال کے اندر پی ٹی ایم کس قدر مضبوط تحریک بن چکی ہے۔

لوگ جنگ سے تھک چکے ہیں۔ انہوں نے امن کی خاطر کیمپوں میں رہنے پر اتفاق کیا لیکن بدلے میں جو کچھ ملا اس پر وہ لوگ کافی مایوس ہیں۔ نوجوانوں کو جو کچھ دیا گیا انہیں وہ نہیں جاہیے، وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی بکھری زندگیوں سے بیزار آچکے ہیں۔ انہیں یا تو وہ سب کچھ چاہیے جس پر ان کا حق ہے یا پھر کچھ بھی نہیں چاہیے۔ اس پورے عرصے کے دوران ان کے اعصاب کا امتحان لیا گیا مگر اس کے باوجود عدم تشدد کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے انہوں نے زبردست ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ پشتو زبان میں ایک کہاوت ہے کہ، ’معاف کرنا انسانیت ہے، دو بار معاف کردینا خدائی صفت ہے اور تین بار معاف کرنا بزدلی ہے۔‘

وہ کیوں تنگ آچکے ہیں؟ قبائلی اضلاع میں کہیں بھی ظاہری طور پر ترقیاتی سرگرمیاں اور یونیورسٹیوں یا پیشہ ورانہ تعلیم دینے والے کالجوں، صنعتی اسٹیٹ یا نئے ٹاؤن شپس جیسی پیش قدمیاں نظر نہیں آتیں۔ کلیئر کرائے گئے علاقوں کا الحاق کیا جانے باقی ہے۔ ٹارگیٹ کلنگ کا مکمل خاتمہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ جبکہ امن کمیٹیاں اور وہ شدت پسند جنہوں نے ہتھیار ڈالے انہیں شدت پسندی کی واپسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لوگ پرانے وقتوں کی طرف لوٹنے سے خوفزہ ہیں اس لیے ان کے گروہ کے گروہ پی ٹی ایم قیادت کا رخ کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی کے ساتھ پی ٹی ایم اپنے مطالبات کی وجہ سے حکومت کی مخالف صفوں میں کھڑی ہے اور ان تمام مطالبات کا تعلق سیکیورٹی سے ہے۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خوش ہیں کوئی بھی انہیں میگا پروجیکٹ کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہا، وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ دورے کے موقعے پر ٹال میر علی روڈ منصوبے کا اعلان کیا حالانکہ اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا۔

اس علاقے میں شدت پسندی سے چھٹکارہ بڑی تکالیف اور قربانی کے بعد نصیب ہوا ہے، اور ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانا غیرمعقول عمل ہوگا جو ہمیں ان تاریک وقتوں کی طرف دھکیل سکتا ہو۔ باکا خیل کیمپ میں موجود نقل مکانی کرنے والے افراد اور افغانستان میں پھنسے افراد کو فوری طور پر دوبارہ آباد کیے جانے کی ضرورت ہے۔ نئے منصوبوں کا محور ترقی ہونا چاہیے۔ جب تک لوگ برسر روزگار نہیں ہوجاتے تب تک مایوسی میں ذرا بھی کمی نہیں آئے گی اور ایک چھوٹا سا واقعہ بھی بڑھ کر قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔

یہ مضمون 11 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں