شکریہ مسٹر ایسٹ وِک!
ہم شاید حیوان ناطق اس لیے ہیں کہ ہمارے ذہن کی جڑوں میں جستجو اور تحقیق کی ایک دیوانگی بہتی ہے جو ہمیں کہیں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔
یہ یقیناً فطرت کا ہم پر ایک احسان ہے کہ ہم ساکت پانی کے تالاب نہیں ہیں اور نہ ہی چھاؤں میں اُگنے والی وہ بیلیں ہیں جن کے لیے دُھوپ موت ہوتی ہے۔ ہمارے وجود کو تو دُھوپ زندگی دیتی ہے کہ چھاؤں کچھ دیر کے سکون کے لیے تو اچھی ہے مگر اس میں زیادہ شب و روز گزریں تو وہ آپ کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے۔
اس تحریر کے آنے والے منظرنامے بھی کچھ اسی قسم کے ہیں کہ اُن میں زندگی کی بہت ساری کیفیتیں ہیں، جن میں ہلچل، جستجو، تگ و دو کے بہت سارے رنگ ہیں۔ وہ سارے منظرنامے جن کو ہم اس تحریر میں زندہ باتیں کرتے، ہنستے اور روتے دیکھیں گے وہ سارے اب ہمارا گزرا ہوا وقت ٹھہرا۔ یہ بیتا وقت اب ہماری تاریخ کہلاتا ہے، اس وقت کو ہمارے لیے محفوظ کرنے کے لیے ہمیں مسٹر ایسٹ وک کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
وہ ایک زبردست ادب اور انسان دوست انسان تھے۔ اُن کی تحریر میں، رچرڈ برٹن صاحب جیسی گہرائی اور منظرنگاری نہ سہی لیکن پھر بھی یہ مختصر مگر اچھے لکھنے والے تھے۔
ایسٹ وک صاحب کا سندھ کی طرف یہ سفر، سندھ پر ’برٹش راج‘ قائم ہونے سے 2 برس پہلے یعنی 1839ء سے 1841ء تک جاری ہے۔ اِس اہم تاریخی سفر میں ہم ایسٹ وک صاحب کے ساتھ ’دیسا‘ کے شہر سے ساتھ چلیں گے جو گجرات کے پالنپور ریاست میں تھا۔ وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوج کی چھاؤنی تھی جس کو ایسٹ وک مناسب نہیں سمجھتے۔ البتہ ’ننگرپارکر‘ کے وہ ڈاکو جو اکثر پالنپور اور رادھنپور تک چلے آتے تھے، اُن کے لیے حفاظتی گھڑسواروں کے جتھے رکھنے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔
1830ء میں جب ’ایلنبرو‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر بنے، تب سندھ، پنجاب اور افغانستان پر قبضہ کرنے کا خیال انگریز سرکار میں جوان ہوچکا تھا۔ 1835ء میں، ایلنبرو نے تجویز دی کہ، ان تینوں ریاستوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ، اُن کا تحفظ اُسی صورت میں ممکن ہے جب وہ برطانیہ کے ساتھ چلیں گے۔
اگر آپ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو برٹش سرکار 1836ء میں افغانستان اور رنجیت سنگھ کو سندھ پر حملہ کرنے سے روکتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ ایک نفسیاتی دباؤ تھا جس دباؤ میں آکر سندھ کے میروں نے ’پاٹنجر‘ سے معاہدے پر دستخط کیے اور ’جیمس برنس‘ کابل گیا۔مگر ناکامی ہوئی اور اُس نے معزول افغانستان بادشاہ ’شاہ شجاع‘ سے ہاتھ ملایا۔ اُس وقت شاہ شجاع، ’رنجیت سنگھ‘ کی قید میں تھا مگر اس معاہدے کے بعد وہ افغانستان کا حاکم بن بیٹھا۔