شکریہ مسٹر ایسٹ وِک!

ہم شاید حیوان ناطق اس لیے ہیں کہ ہمارے ذہن کی جڑوں میں جستجو اور تحقیق کی ایک دیوانگی بہتی ہے جو ہمیں کہیں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔

یہ یقیناً فطرت کا ہم پر ایک احسان ہے کہ ہم ساکت پانی کے تالاب نہیں ہیں اور نہ ہی چھاؤں میں اُگنے والی وہ بیلیں ہیں جن کے لیے دُھوپ موت ہوتی ہے۔ ہمارے وجود کو تو دُھوپ زندگی دیتی ہے کہ چھاؤں کچھ دیر کے سکون کے لیے تو اچھی ہے مگر اس میں زیادہ شب و روز گزریں تو وہ آپ کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے۔

اس تحریر کے آنے والے منظرنامے بھی کچھ اسی قسم کے ہیں کہ اُن میں زندگی کی بہت ساری کیفیتیں ہیں، جن میں ہلچل، جستجو، تگ و دو کے بہت سارے رنگ ہیں۔ وہ سارے منظرنامے جن کو ہم اس تحریر میں زندہ باتیں کرتے، ہنستے اور روتے دیکھیں گے وہ سارے اب ہمارا گزرا ہوا وقت ٹھہرا۔ یہ بیتا وقت اب ہماری تاریخ کہلاتا ہے، اس وقت کو ہمارے لیے محفوظ کرنے کے لیے ہمیں مسٹر ایسٹ وک کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

وہ ایک زبردست ادب اور انسان دوست انسان تھے۔ اُن کی تحریر میں، رچرڈ برٹن صاحب جیسی گہرائی اور منظرنگاری نہ سہی لیکن پھر بھی یہ مختصر مگر اچھے لکھنے والے تھے۔

ایسٹ وک صاحب کا سندھ کی طرف یہ سفر، سندھ پر ’برٹش راج‘ قائم ہونے سے 2 برس پہلے یعنی 1839ء سے 1841ء تک جاری ہے۔ اِس اہم تاریخی سفر میں ہم ایسٹ وک صاحب کے ساتھ ’دیسا‘ کے شہر سے ساتھ چلیں گے جو گجرات کے پالنپور ریاست میں تھا۔ وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوج کی چھاؤنی تھی جس کو ایسٹ وک مناسب نہیں سمجھتے۔ البتہ ’ننگرپارکر‘ کے وہ ڈاکو جو اکثر پالنپور اور رادھنپور تک چلے آتے تھے، اُن کے لیے حفاظتی گھڑسواروں کے جتھے رکھنے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔

1830ء میں جب ’ایلنبرو‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر بنے، تب سندھ، پنجاب اور افغانستان پر قبضہ کرنے کا خیال انگریز سرکار میں جوان ہوچکا تھا۔ 1835ء میں، ایلنبرو نے تجویز دی کہ، ان تینوں ریاستوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ، اُن کا تحفظ اُسی صورت میں ممکن ہے جب وہ برطانیہ کے ساتھ چلیں گے۔

اگر آپ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو برٹش سرکار 1836ء میں افغانستان اور رنجیت سنگھ کو سندھ پر حملہ کرنے سے روکتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ ایک نفسیاتی دباؤ تھا جس دباؤ میں آکر سندھ کے میروں نے ’پاٹنجر‘ سے معاہدے پر دستخط کیے اور ’جیمس برنس‘ کابل گیا۔مگر ناکامی ہوئی اور اُس نے معزول افغانستان بادشاہ ’شاہ شجاع‘ سے ہاتھ ملایا۔ اُس وقت شاہ شجاع، ’رنجیت سنگھ‘ کی قید میں تھا مگر اس معاہدے کے بعد وہ افغانستان کا حاکم بن بیٹھا۔

ایسٹ وک نے سندھ کے سفر کے لیے اس راستے کو اختیار کیا تھا
ایسٹ وک نے سندھ کے سفر کے لیے اس راستے کو اختیار کیا تھا

اس سے 2 برس پہلے یعنی 1832ء میں ’پاٹنجر‘ سندھ آیا اور حیدرآباد اور خیرپور کے میروں سے الگ الگ معاہدہ کیے جس کے بعد دریائے سندھ پر بیوپار کے راستے کھول دیے گئے۔ اس طرح طاقت کی بنیاد پر معاہدوں پر دستخط ہوتے رہے اور ہوتے ہوتے 1843ء بھی آ گیا۔ 1843ء سے کچھ برس پہلے جب ایسٹ وک صاحب ننگر ٹھٹہ میں داخل ہوئے تھے، اُس دن لاہور میں یعنی 27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ نے ’جند کور‘ کو آخری بار دیکھا ہوگا۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اور سکھ سلطنت نے اُن سرحدوں کا رُخ کیا جہاں زوال کے سرکنڈے اُگتے ہیں۔

ایسٹ وک کے سفر کو اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو شاید سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔

وہ دیسا سے نکل کر ’پٹن‘ ، ’وادھوان‘ سے ہوتا ہوا جیسے جیسے کاٹھیاواڑ کےنزدیک آتا جاتا ہے ویسے ویسے زمین پر بچھی ہوئی ہری چادر پھیکی پڑنے لگتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’کاٹھیاواڑ کے ہر گاؤں کے گرد مجھے ہڈیوں کے ڈھیر نظر آئے۔ قحط اِتنا شدید تھا کہ، دودھ دینے والے مویشی تقریباً مرچکے تھے۔ لوگ بازاروں میں اَپنے بچوں کو بیچنے کی آوازیں لگا رہے تھے کہ اگر بچہ بک گیا تو کم سے کم مرنے سے تو بچ جائے گا۔ ایسی مصیبتیں اور سخت موسم کاٹھیاواڑ اور کَچھ میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ ہم ان علاقوں سے سالانہ، 6 لاکھ 80 ہزار ٹیکس کی صورت میں لیتے ہیں مگر ان کے لیے کرتے کچھ نہیں ہیں۔‘

ایسٹ وک 23 مارچ کو ’راجکوٹ‘ پہنچا، اُن دنوں میں کاٹھیاواڑ 200 چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ وہ 5 جون کو یہاں سے نکلا اور ’جوڑیہ بندر‘ سے ’کَچھ‘ کے مرکزی شہر ’بھُج‘ پہنچا۔ 19 کو وہ بھُج سے نکلا اور 23 تاریخ کو ’لکھپت بندر‘ پہنچا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ بندرگاہ والا قلعہ مرحوم فتح محمد کچھی کا بنایا ہوا ہے۔ میں جب پہنچا تو اس چھوٹی سی آبادی رکھنے والی ’کالرا‘ نے لوگوں کو مارنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ وہاں میلے پانی کا ایک چشمہ تھا، جس پر دن رات لوگوں کا رش لگا رہتا تھا۔ وہاں میں نے جو گفتگو سنی وہ آپ بھی سن لیں تو وہاں کی بے بسی اور بدحالی کا آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا۔

’کیا حال چال ہیں بھاگی؟‘ ایک عورت نے دوسری سے پوچھا۔

’وہی روز والا حال ہے ادی۔ ہم لوگوں کو بیماری اور پانی کی کمی نے حال سے بے حال کردیا ہے۔‘

ایسے دُکھی اور پریشان کردینے والے حالات میں سے مسٹر ایسٹ وک 24 جون کو لکھپت بندر سے کشتی پر سوار ہوا اور اِسی شام کو وہ سندھ کے سمندری کنارے پر آکر اُترا۔ اس کے قافلے میں 4 گھڑسوار، 12 اونٹ اور کچھ خدمت گار شامل تھے۔ یہ جس جگہ اُترے تھے اور وہاں سے چل کر ننگر ٹھٹہ جانا چاہتے تھے اس راستے سے سفر کرنے کے لیے انہیں ’سر ہینری پاٹنجر‘ نے منع کیا تھا، کیونکہ ان مہینوں میں سمندر کی مد وجزر سے یہ راستہ سفر کے لائق نہیں ہوتا۔

وہ کوٹری سے ہوتے ہوئے ’لاہ‘ آئے۔ (ماضی میں لاہ کوئی چھوٹی پوسٹ رہی ہے۔ آپ اگر جاتی (مغلبیہن) میں جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو وہ آپ کو مشرق جنوب میں پڑے گی) جہاں اُن کو کچھ درخت اور کچھ میٹھے اور کھارے پانی کی جھاڑیاں نظر آئیں۔ وہ سفر کرتے ’لاڈیوں‘ پہنچے جہاں اُن کو رات بتانی تھی۔ خوراک کے لیے اُن کے پاس فقط چاول تھے۔ دوسری خورد و نوش اشیاء کے لیے اُنہوں نے بڑی کوششیں کی مگر گاؤں کے سید وڈیرے نے کچھ بھی دینے سے انکار کردیا کہ وہ فرنگیوں کی مدد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس رات ایسٹ وک کے قافلے نے چاول پانی میں اُبال کر کھائے مگر وہ اتنے کم تھے کہ فقط احساس ذہن کو یہ پیغام دیتا رہا کہ ہم نے چاول کھائے ہیں۔

بچارے ایسٹ وک کا ستارہ، ان شب و روز میں یقیناً کسی اچھے گھر میں نہیں تھا۔ دوسرے دن، شدید گرمیوں کے موسم میں وہ 26 میل (تقریباً 39 کلومیٹر) چل کر سعید پور پہنچے۔ جہاں سے وہ دریائے سندھ کا مشرقی کنارہ لے کر 6 میل (9 کلومیٹر) کا فاصلے طے کرنے کے بعد وہ ایک گھاٹ پر پہنچے۔ یہاں سے انہوں نے کشتی پر دریائے سندھ پار کیا اور ٹھٹہ پہنچ گئے۔

ٹھٹہ کے قریب واقع ایک مزار
ٹھٹہ کے قریب واقع ایک مزار

انہوں نے ٹھٹہ اور مکلی کی سیر کی، شاہجہان مسجد بھی دیکھی اور پھر 11 جولائی کو وہ 2 کشتیوں کے ساتھ شمالی سندھ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، ’میں اس وقت جس بڑی کشتی پر سوار ہوں، اس پر 6 ہفتوں پر مشتمل شمالی سندھ پہنچنے کا سفر گزرے گا۔ دوسری کشتی بھی تھی جس میں اس کے گھوڑے اور نوکر سوار تھے۔ ہمارے اس سفر کی اصل منزل ابھی دُور ہے مگر ہم اس سفر کا حصہ اس لیے بنے ہیں کہ ہم 180 برس قبل کے نظاروں اور حالات کو محسوس کرسکیں اور تصور کی آنکھ سے اُن کو دیکھ سکیں۔ لوگ کیسے تھے۔ سیاسی و معروضی حالات کیسے تھے۔ ماحولیات اور قدیمی بہاؤ کیسے تھے اور ان کے کناروں پر کیا کیا خوبصورتیاں اور پریشانیاں بستی تھیں تاکہ یہ جان سکیں کہ اب ہم نے کیا کیا حاصل کیا اور کیا کچھ گنوادیا۔ یہ تاریخ کا سفر ہے۔ جس میں قند کی شیرینی بھی ہے، تُرشی بھی اور ساتھ میں نیم چڑہے کریلے جیسی کڑواہٹ بھی ہے۔‘

ایسٹ وک صاحب ٹھٹہ سے نکلتے وقت لکھتے ہیں کہ، ’ہم ٹھٹہ سے نکلے تو آگے دریائے سندھ پر سفر کرتے ہمیں انتہائی گھنے جنگل نظر آئے۔ دراصل یہاں کی شکارگاہوں یا میر حاکموں کی شکارگاہوں کا اہتمام جنگلی حیات کو تحفظ دینا ہے، تالپور شکار کا شوق بھی پورا کرسکیں اور ملک کو اچھی لکڑی بھی میسر ہو، جس سے عمارتیں، کشتیاں، لکڑیوں سے بننے والی اشیاء بنیں اور جلانے کے لیے بھی لکڑی کی کمی نہ ہو۔ میں نے ’جھرک‘ کو دیکھا یہ انتہائی پُر فضا جگہ ہے۔ ہریالی بھی بہت ہے۔ اس لیے چھاؤنی کے لیے یہ انتہائی زبردست جگہ ہے۔‘

لیکن اب جب میں جھرک گیا تو میں نے بڑے غور سے دیکھا ہے۔ وہاں نہ کوئی ہریالی ہے، نہ کوئی جنگل اور نہ ہی دریائے سندھ میں کوئی پانی بہتا ہے۔ بس سُوکھی سفید ریت ہے جو تپتے دوپہروں میں اُڑتی ہے اور نہ ایسا کچھ ہے جو تقریباً 200 برس پہلے تھا۔

جھرک کے بعد جب یہ حیدرآباد پہنچے تو، 6 دن مسلسل بارش ہوتی رہی۔ ایک ایسا شہر جس کے گرد پانی کے بہاؤ بہتے ہوں، اور وہاں اتنے دن بارش ہو ایسے میں حالات تو خراب ہونا ہی تھے۔ حیدرآباد کے قلعے کا کچھ حصہ گرگیا۔ شہر کے بہت سارے گھر وٖغیرہ بھی گرگئے۔ بہرحال ہمارے دوست نے 22 جولائی کو حیدرآباد کو خدا حافظ کہا اور اپنی منزل کی طرف نکل پڑے۔

وہ لکھتے ہیں کہ، ’ہم حیدرآباد سے نکلے تو دریا کے دونوں اطراف بہت درخت اور ہریالی ہمارے ساتھ چلتی رہی۔ تیتر اور دیگر پرندوں کی آوازیں بھی سنائی دیتیں۔ جہاں جہاں ماہی گیروں کے گاؤں تھے وہاں وہ مجھے مٹکے پر تیرتے ’پلو‘ مچھلی کا شکار کرتے نظر آئے۔ تیلگو میں، ماہی گیر کو ’پلیوادو‘ کہا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق سندھ کے لفظ ’پلے وارو‘ سے تعلق رکھتا ہے۔‘

وہ 24 جولائی کو ضرور سیہون پہنچ جاتے مگر مٹی کے طوفان اور بارش کی وجہ سے 26 کو پہنچے اور 27 جولائی کو وہ منچھر جھیل کی وسعت اور گرمی میں ایسے پھنسے کہ اُنہیں لگا کہ اس دنیا میں اگر کہیں گرمی اور حشرات الارض کی جگہ ہے تو وہ منچھر جھیل ہے۔ بہرحال 11 اگست کو وہ خیرپور اور فتح پور پہنچے جہاں کے گاؤں کافی صاف ستھرے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم نے وہاں ایک سندھی کو دودھ لانے کے لیے پیسے دیے تو اس نے پیسوں کے بجائے ہم سے ایک سیر چاول لیے اور دودھ دیا۔ یہاں مرغیاں بھی بڑی سستی تھیں، فی مرغی 4 پیسوں کی اور ساتھ میں گندم بھی یہاں بہت سستی ملتی تھی۔‘

چلیے جناب ایسٹ وک کو سکھر اور شکارپور سمیت اس جگہ کے نظارے کرنے دیتے ہیں۔ تب تک ہم مختصر یہ دیکھ لیتے ہیں۔ایسا کیا تھا، جو یہ صاحب یہاں تک آ پہنچے ہیں۔ اور ہم اُس کا ’شکریہ‘ کیوں ادا کرنا چاہتے ہیں۔

1783ء میں تالپوروں نے بالآخر سندھ پر قبضہ کرلیا اور سندھ کو 3 حصوں میں بانٹ کر خودمختار حکومتیں قائم کردی گئیں۔ ہم حیدرآباد اور میرپورخاص کا ذکر آنے والے وقتوں میں ضرور کریں گے کیونکہ اُن حصوں کے ذکر کے سوا، تالپوروں کی حکومت کا سیاسی منظرنامہ ہمیں شاید سمجھ نہ آئے۔ اس تحریر میں ہم فقط ’خیرپور ریاست‘ کا ذکر کریں گے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ حکومت 2 بھائیوں کی کہانی ہے جس میں تاریخ ایک کو مثبت اور ایک کو منفی رویے والا انسان قرار دیتی ہے۔ چلیے ان 60 برسوں کی حکومت کے شب و روز آپ کو دکھاتے ہیں کہ وقت کی شطرنج پر مہرے کس طرح پٹتے اور کامیاب ہوتے ہیں۔

سندھ کے ان 3 حصوں میں سے، خیرپور ’میر سہراب خان‘ کے قبضے میں آیا۔ میر سہراب نے 28 برس تک بڑے آرام سے حکومت کی۔ 1811ء میں، انہوں نے اپنا جانشین اپنے بڑے بیٹے ’میر رستم‘ کو بنایا۔ ان باپ بیٹوں کی حکومت ایک خاندان کے طرح کی تھی۔ لوگ ان سے خوش تھے۔ حکومت کا نظام بااثر زمینداروں اور لوگوں کے مشورے سے چلتا تھا۔ باپ نے 28 برس اور بیٹے رستم خان نے 30 برس بڑے امن وسکون سے گزارے تھے۔ تاہم اس کے بعد سکھ ان کی زندگی سے ایسا گیا جیسے جوانی آکر لوٹ جاتی ہے کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ بچارے میر رستم کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔

میر سہراب خان
میر سہراب خان

میں نے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محترم میر الطاف حسین تالپور سے سوال کیا کہ ’لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ میروں کو اپنے گھر سے آگ لگی۔ تو اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟‘ میر الطاف نے کوئی اتنا لچھے دار جواب نہیں دیا جس کی میں توقع کر رہا تھا مگر جواب ضرور دیا، بولے ’یہ تو مجھے نہیں معلوم البتہ ایک بات میں ضرور کہوں گا، خیرپور کے میروں اور خاص کر میر سہراب کے حوالے سے کہ، وہ اگر بڑی عمر میں تیسری شادی نہ کرتے اور اس شادی کے نتیجے میں میر مراد خان پیدا نہ ہوتے، جو ان کے پانچوں بیٹوں میں سب سے چھوٹا تھا، تو شاید اُس زمانے کا منظرنامہ الگ ہو سکتا تھا۔ میر رستم اور میر مراد علی خان کی وہ مثال دی جا سکتی ہے کہ ایک ترازو کے دو پلڑے تھے، ایک بڑا اور ایک چھوٹا۔ مگر دونوں کی طبیعت میں زمین آسمان کا فرق تھا، جہاں میر رستم کی طبیعت مکھن جیسی ملائم اور نہایت شفیق تھی تو میر مراد خان اتنا ہی سخت اور پل پل بدلتی طبیعت کا مالک تھا، اس کا منفی پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اپنوں کا دشمن اور اپنوں کے دشمنوں کا دوست تھا۔ آپ خود دیکھ لیجیے کہ میر رستم کی سانس کی ڈوری اپنی زمین اور رشتوں سے دُور کلکتہ میں ٹوٹی اور ان دنوں میں میر مراد یہاں اپنی زمین پر انگریزوں کے آشیرواد میں آزاد تھا اور بڑے مزے میں تھا۔‘

تاریخ کے اوراق بھی کچھ اس طرح کی حقیقتیں بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’1842ء میں جب، انگریز سرکار کے قبضے کی رسیاں پل پل کَسی جا رہی تھیں۔ ان حالات میں انگریز سرکار نے شمالی سندھ میں اپنی بچھائی ہوئی شطرنج پر ایک کھیل اور کھیلا۔ اسی برس خیرپور کے نزدیک ’نوناریوں‘ کے گاؤں کے قریب جنگ لگی۔ یہ لڑائی پہلے تو دونوں بھائیوں مبارک خان اور میر علی مراد کے بیچ میں ملکیت پر تھی مگر آگے چل کر، میر مبارک کے بیٹے، میر نصیر خان سے میر مراد کا آمنا سامنا ہوا۔ میر رستم نے اپنے بھائی کے بیٹے اور اپنے داماد کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی کا فیصلہ میر مراد کے حق میں ہوا اور ہونا ہی تھا کہ وہ انگریز سرکار کا خاص آدمی جو ٹھہرا۔‘

میر رستم خان
میر رستم خان

میر علی مراد خان
میر علی مراد خان

اس کے بعد 1843ء میں ’میانی‘ کے مقام پر جنگ لگی۔ مالک محکوم ہوئے اور مہمان مالک بنے۔ میر رستم اپنے بھتیجوں اور دوسرے حیدرآباد کے میر حکمرانوں کے ساتھ نظر بند ہوکر پہلے پُونا گئے پھر کلکتہ میں نظر بند رہے۔ جہاں اس بڑی عمر کے شاندار اور شفیق میر رستم کی 1846ء میں سانس کی ڈوری ٹوٹی۔

انگریزوں کی فتح کے بعد مقامی طور پر سندھ میں جو بے چینی پھیلی اور بغاوتوں کی پود اُگنے لگی انہیں دبانے کے لیے انگریزوں نے مارشل لا لگایا اور میر علی مراد کی مدد سے ان سازشوں کو دبانے میں کامیاب رہے۔ بس 4 دن کی چاندنی تھی اور ظاہر ہے پھر اندھیری رات تھی۔ برٹش سرکار کا جیسے کام نکلا اُس نے اپنی آنکھیں میر علی مراد سے طوطے کی طرح پھیر لیں۔

سندھ میں جب یہ حالات تھے تب مسٹر ایسٹ وک یہاں نہیں تھے مگر خیرپور کے میروں سے کی گئی زیادتیوں پر وہ خاموش نہیں رہ سکے۔ اُن کے ضمیر نے انہیں سکون سے بیٹھنے نہیں دیا اور اُنہوں نے Dry Leaves from Young Egypt کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔

اس کتاب کے ایک حصے میں انگریزوں خاص کر مسٹر چارلس نپیئر اور اُس کے خیالات سے متفق افسران کی یہاں کے تالپوروں سے کی گئی زیادتیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میروں (تالپوروں) سے زور زبردستی اور جھوٹے الزامات لگا کر ان سے ملک چھینا گیا ہے۔ ان زیادتیوں کے بہت سارے چشم دید گواہ ہیں جن میں سے ایک میں خود ہوں۔ اگر ’ہاؤس آف کامنس‘ اس حوالے سے کوئی کمیٹی بنائے تو ہم پر فرض ہے کہ ہم اس بات کو ثابت کریں کہ انگریزوں نے سندھ کے میروں کے ساتھ بڑی بڑی زیادتیاں کی ہیں۔ ایسے کتنے مرد، عورتیں اور بچے جو ابھی تک (میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ وہ کس بلندی سے گِر کَر دھول میں جا پڑے ہیں) ہمارے ہاتھوں سے جیل میں پڑے ہیں اور مُلک بدر ہیں۔

میروں کے دور میں ایک بلوچ سپاہی اور ایک ہندو تاجر
میروں کے دور میں ایک بلوچ سپاہی اور ایک ہندو تاجر

حیدرآباد کے میر ابتدا میں ہی سمجھ گئے تھے کہ ہم اُنہیں برباد کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اب ہم اگر یہ کہیں کہ ہم ان لوگوں کی بھلائی سوچ کر آئے تھے تو یہ منافقت ہوگی کیونکہ ہم ان سے دوستی اس لیے رکھنا چاہتے تھے کہ ہمیں دریائے سندھ جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا وہیں کشتاں چلاکر ہمیں اچھی کمائی کی اُمید تھی۔ حیدرآباد اور نہروں کے کناروں کے قریب ہونے والی فصلوں سے اچھے ٹیکس اور ان کی ایکسپورٹ سے اچھی آمدنی کی بھی توقع تھی۔

ہمارے پاس تو اس بات پر عمل کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے کوٹ کے سوراخ کو رَفُو نہیں کرواسکتا تو اُس کا کوٹ ہی اُس سے چھین لو۔ میروں کے 60 برس کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ ان سے ایک بھی آدمی مارا گیا ہو۔ جبکہ پنجاب میں خالصہ حکومت کے ایک برس میں اتنے جرم ہوئے جتنے یہاں میروں کی حکومت کے پورے عہد میں نہیں ہوئے۔ یہ سچ ہے کہ میروں کو بلوچوں کے لیے بڑی عزت تھی اس لیے وہ ان سے خوش تھے۔مگر سندھیوں کے لیے کیا کہنا ہے؟ جوکھیے، جت، قرمطی اور دیگر ذات والے لوگ کیا میروں سے ناراض تھے؟ کسی حملے کے وقت کیا وہ کبھی میروں کے خلاف کھڑے ہوئے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔

جب یہ سب نہیں تھا تو گڑبڑ کہاں تھی جو ہمارے اُن لوگوں کو نظر آتی تھی جو مقامی زبان نہیں جانتے تھے اور جن کا رویہ مقامی لوگوں سے کبھی مناسب نہیں رہا۔ یہ ہمارے پولیٹیکل آفیسر تھے جو اپنی بات چالاک اور بے ایمان منشیوں کی معرفت گفتگو کرتے تھے۔ یہی اسباب تھے کہ وہ میروں کے مخالف ہوئے۔ دوسری طرف متفرقہ ملٹری کے لوگ تھے جن کو صلح اور امن کا کوئی بھی خیال نہیں تھا۔ بس ہمارا یہی اُصول رہا کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔۔۔ اور اس پر ہم نے خُوب عمل کیا۔

کتاب Dry Leaves from Young Egypt
کتاب Dry Leaves from Young Egypt

ہم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ، میروں سے کیے گئے سارے عہدنامے، ان کے انکار کے باوجود کیے گئے تھے کیونکہ ان کو انگریزوں سے دوستی رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایک خودمختار ملک میں وہاں کے حکمرانوں کے خلاف لشکر لے آنا، ان کی اجازت اور رضامندی کے بغیر، جنگلات سے لکڑیاں کاٹنا، محصول نہ دینا، ہتھیائے ہوئے قلعوں میں حفاظتی فوجوں کو رکھنا، اناج اور مویشیوں کو خرید کرنا، یہ تمام ایسے اقدامات ہیں جنہیں یورپ میں بین الاقوامی قواعد کی کُھلم کُھلا انحرافی تصور کیا جاتا مگر یہاں ہم کو کیا پرواہ تھی کہ جو بھی کچھ بھی سوچے اس سے ہمیں کیا۔‘

مسٹر ایسٹ وک 3 برس یہاں مقیم رہے۔ وہ ایک نرم دل اور ادب دوست انسان تھے۔

مجھے نہیں لگتا کہ، انہوں نے یہاں کوئی ایسی جگہ چھوڑی ہوگی جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنی اس کتاب میں جب وہ یہاں کے حالات کا ذکر کرتے ہیں تو اکثر جگہوں پر وہ بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔ وہ جب بھی میر رستم کا ذکر کرتے ہیں تو شفقت اور احترام اُن کے لفظوں میں شہد کی مٹھاس کی طرح گُھل سی جاتی ہے۔

اُنہیں اپنے افسران پر بہت غصہ بھی آتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پاتے ہیں۔ میں اُن کی تفصیلی تحریر سے چند جملے یہاں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو بھی اس بات کا اندازہ ہوسکے، ’انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے ایک آزاد قوم پر جو ظلم ڈھائے وہ بہت ہی دکھ بھرے ہیں۔ ’دیاک‘ یا دوسرے وحشی قبیلے انسان اور حیوان کو جوڑنے کی ایک کڑی ہیں۔ کیا ہم اُن سے بھی گئے گزرے ہیں؟ ہم نے جن اپنے دوستوں سے عہدناموں میں ان کا خیال رکھنے کا ذمہ اُٹھایا تھا اُس وعدے کے برعکس، ہم نے اُن پر خود ہی ظلم ڈھائے۔ انگلینڈ کے مَردو! تم اپنی آزادی کا ڈھول تو پیٹتے ہو مگر اُن کا خیال کیوں نہیں کرتے جو اپنی آزادی کے لیے مر رہے ہیں۔ یہ بچارے گزرے وقتوں میں آپ کے دوست تھے۔ آپ کے مہربان۔ جن کی آپ پر ہمیشہ نوازشیں ہوتی رہتی تھیں وہ اب ایک دُور دیس میں جلاوطن ہیں اور ان پر آپ کے تنخواہ دار جیلر مُقرر ہیں۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں، جن کی مہمان نوازی اور دوستی کی آپ کو ہر وقت ضرورت رہتی تھی۔ اے انگلینڈ کی عورتوں! ان شہزادوں کی ماؤں اور بہنوں کے متعلق سوچو جن سے ان کے سارے زیور چھین لیے اور محلاتوں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور کردیا گیا۔‘

میر رستم سے ایسٹ وک کی آخری بار ملاقات شاید 1841ء میں میر نصیر کے چھوٹے بھائی کی شادی کے موقع پر ’میرپور‘ میں ہوئی تھی اور اُس وقت اُن کی عمر 80 برس کے قریب تھی۔ شادی کے موقع پر میر رستم نے اُن زیادتیوں کا ذکر کیا تھا جو اُن سے کی گئی تھیں، جیسے بکھر کا قلعہ کچھ وقت لینے کے بعد نہ لوٹانا، ان کے وزراء سے انگریزوں کا ترش رویہ اور اس کے مقابلے میں علی مراد خان کو اہمیت دینا۔ اُنہوں نے یہ شکایتیں سُنیں مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔

کچھ دنوں بعد انہوں نے واپسی کا رخت سفر باندھا۔ واپسی کے سفر میں بھی ویسی ہی گرمیوں کے دن تھے۔ حیدرآباد میں بارشیں ہو رہی تھیں۔ کرنل آؤٹرام سے ان کی حیدرآباد میں ملاقات ہوئی۔ آؤٹرام کے آنے کی وجہ سے وہ بہت خوش تھے اور حیدرآباد کے میر صاحبان بھی کیونکہ وہ ایک صاف گو اور سچے افسر تھے۔ ایسٹ وک نے کچھ دن حیدرآباد میں قیام کیا پھر وہ ٹھٹہ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔ کراچی سے انہوں نے منگھوپیر میں مگر مچھوں کا تالاب دیکھا جہاں اِملی کے کئی درختوں کا جنگل تھا۔ میں نے اُس تالاب کا اسکیچ دیکھا ہے۔ وہ زبردست گھنا جنگل ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اُس جنگل میں تیز ہرے رنگ کے طوطوں کی ڈاریں ضرور اُن املی کے پیڑوں کے اوپر سے اُڑتی ہوں گی۔

کراچی کی آب و ہوا کی وہ بڑی تعریف کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کراچی کو خوب گھوم پھر کر دیکھا لیکن پھر وہ دن بھی آ پہنچا جب بیماری کی وجہ سے انہیں سندھ چھوڑنا پڑا۔ وہ ’آکلنڈ‘ جہاز پر سوار ہوئے جو بمبئی جا رہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ، ’جہاز تیار تھا۔ توپ کے چھوٹنے کی تیز آواز آئی اور ہمارا جہاز بمبئی کی طرف روانہ ہوا۔ اس طرح، ڈھائی برس کی جستجو اور بیماری کے بعد سندھ کو خیر آباد کہا۔ میری طبیعت بگڑ چکی تھی اور میری زندگی کے بہترین برس گزر چکے تھے۔‘

میں اپنے خیالوں سے بُنے ہوئے لینڈ اسکیپ سے، کراچی بندرگاہ پر کھڑا ہوں۔ مسٹر ایسٹ وک صاحب آکلنڈ جہاز پر چڑھنے کے لیے آرہے ہیں۔ میں اُن سے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتا ہوں، اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ، ’شکریہ مسٹر ایسٹ وک۔ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ ایک مثبت سوچ رکھنے والے۔ آنے والے دنوں میں آپ ان میر صاحبان پر ڈھائے گئے مظالم پر جو دنیا کے آگے لانے کے لیے کتاب تحریر کریں گے اور اُس کتاب کی وجہ سے ساری دنیا یہ سمجھ سکے گی کہ میر صاحبان کے ساتھ انگریز سرکار نے کس طرح کا سلوک برتا اور سندھ کو ہڑپنے کے لیے انگریز سرکار نے جو شطرنج کی بازی بچھائی تھی وہ ایک زبردست اور کامیاب چال ہونے کے ساتھ اس قدر مکروہ تھی کہ، ساری دنیا میں جب ان بے بس میر صاحبان کا ذکر آئے گا تو انگریز سرکار کے نمائندوں کے سر شرم سے جھکے ہوں گے اور اُن شہزادوں کی روح، جنہیں اپنے گھروں سے نکال کر بے گھر کردیا گیا اُن کے سر انسانیت کے میدانوں میں اونچے ہوں گے۔

شکریہ مسٹر ایسٹ وک۔ میرے پیارے۔ اور الوداع کہ شاید ہم پھر کبھی نہ مل سکیں۔

حوالہ جات:

۔ Dry Leaves from Young Egypt. Edward Backhouse Eastwick

۔ ’خیرپور جے میرن جو ادب،سیاست ائیں ثقافت میں حصو‘۔ ڈاکٹر عطا محمد حامی۔ سندھ الاجی

۔ ’خیرپور ریاست‘۔ مرزا قلیچ بیگ ۔ روشنی پبلیکیشن


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔