بہرحال مطالعے کی قابلیت پر مبنی اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے تمام جواب طلب سوالات، امیر کو امیر اور غریب کو غریب ہی رکھنے والے طبقاتی نظام اور لسانیت اور زبان کے مختلف مسائل کی اس ملک کو کیا قیمت چکانی پڑی ہے۔
اسکولوں کی صورتحال سے نتائج خود سے عیاں ہیں۔ بچے اسکول جاتے ہیں، اور ان میں سے کئی بچے بڑی بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ پھر سرکاری اسکولوں میں ان کا سامنا نااہل اساتذہ سے ہوتا ہے اور ایک ایسا نصاب پڑھنے کو دیا جاتا ہے کہ جو ان کی اپنی دنیا سے کوسوں دور بسی کسی دوسری دنیا کا نصاب محسوس ہوتا ہے، جس میں شامل الفاظ، آواز اور توقعات سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لہٰذا کئی بچے اسکول جانا ہی بند کردیتے یں یا پھر باہر نکال دیے جاتے ہیں، جبکہ کئی ایسے خوشقسمت بچے جو ان اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہیں، وہ تعلیم کے ایک سب سے بنیادی مقصد یعنی کسی موضوع کو سمجھ کر پڑھنے یا ذہن نشین کرنے کی قابلیت بھی حاصل نہیں کرپاتے۔
اس سے پہلے تعلیمی نظام کے تناظر میں لکھی گئی تحاریر میں اکثر تعلیم کے لیے اربوں روپے کا اضافی بجٹ مختص کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم اس تحریر کے ذریعے سرکاری اسکولوں کا انتظام سنبھالنے والے اعلیٰ افسران سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اس حقیقت پر توجہ دیں کہ جن بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا جو عزم کیا تھا، اسے عملاً پورا کرنے میں آپ تقریباً ناکام ہوچکے ہیں۔
یہ مضمون 17 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔