لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے 2015ء میں یوتھ پرسیپشن سروے کیا گیا، یہ سروے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ برائے 2017ء کے سلسلے میں کروایا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں ہمیں نوجوانوں کی سماجی اور شہری (civic) سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے بڑی ہی مایوس کن کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔

7 ہزار نوجوانوں سے سروے میں پوچھا گیا کہ کیا انہیں تفریحی مقامات، لائبریری اور دیگر پروگرامات تک رسائی حاصل ہے؟ اس سوال کے جوابات انتہائی افسوسناک ہیں۔

  • 78.6 فیصد نے بتایا کہ انہیں پارکوں تک رسائی حاصل نہیں ہے
  • 94.5 فیصد نے کہا کہ انہیں لائبریری تک رسائی حاصل نہیں،
  • 97.2 فیصد نے کبھی بھی کسی لائیو موسیقی کے پروگرام میں شرکت نہیں کی،
  • 93.9 فیصد کبھی کسی کھیل کا مقابلہ دیکھنے نہیں گئے،
  • 93 فیصد کو مختلف کھیلوں کی کسی قسم کی کوئی سہولت حاصل نہیں،
  • 97 فیصد کبھی سنیما نہیں گئے اور
  • 71.7 فیصد کے مطابق انہیں مذکورہ سرگرمیوں میں سے کسی ایک میں حصہ لینے اور مذکورہ پروگرامات میں کسی ایک میں شرکت کرنے کی کوئی سہولت میسر نہیں۔

تقریباً 3 دہائیاں پہلے جب میں اسکول میں تھا تب ہمارے ہاں باقاعدگی کے ساتھ فزیکل تعلیم کی نشستیں ہوا کرتی تھیں اور ہمارے اسکول میں مختلف کھیلوں کی سہولت بھی تھی، جن میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال بطور خاص شامل ہیں، مگر اس کے ساتھ ٹیبل ٹینس اور چند دیگر کھیلوں کی سہولت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ان دنوں باقاعدگی کے ساتھ اسکول کی جماعتوں کے درمیان مقابلے ہوا کرتے تھے جبکہ اسکول کی ٹیمیں اسکولوں کے مابین ہونے والی مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔

تاہم اسکول کے مقابلے میں ہمارے محلے میں زیادہ بچے ہوا کرتے تھے اور ہمارے پاس تقریباً ہر کھیل کے لیے ٹیمیں بنی ہوتی تھیں۔ ان میں سے چند ٹیمیں تو باقاعدہ کلب کی صورت میں منظم تھیں۔ ہم نہ صرف الگ الگ اسکولوں میں پڑھا کرتے تھے بلکہ سماجی اور معاشی طور مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم ایک ساتھ کھیل میں حصہ لیتے اور تقریباً ہر وہ کھیل کھیلتے جس کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ جب جب پاکستان کرکٹ ٹیم میدان میں کھیلی، تب تب ہم نے بھی کرکٹ کھیلی۔ جب پاکستان ہاکی ٹورنامنٹ جیتا کرتا تھا تب ہمیں بھی ہاکی کا بخار ہوجاتا تھا۔ ہم تقریباً ہر شام کرکٹ یا ہاکی کھیلا کرتے تھے اور میچز کا انعقاد ہفتہ وار چھٹیوں کے دن ہوتا تھا۔ میرے ہم عمر دوستوں کے بچپن کی بھی یہی کہانی ہے۔

آج جب میں اپنے دوست یا رشتہ داروں کے اسکول جانے والے بچوں سے بات کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم چلتا ہے کہ یا تو وہ بچے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہیں، یا امتحانات دے رہے ہیں، یا پھر امتحانات سے ابھی فارغ ہوئے ہیں اور اگلے ٹیسٹوں یا امتحانوں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ مجھے ان کی باتوں میں کھیلوں سے متعلق سرگرمی یا پھر کسی ٹورنامنٹ کا ذکر نہ ہونے کی برابر ملتا ہے۔

حتیٰ کہ اب تو مہنگے اسکول بھی کھیلوں کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کسی وقت وہ دیا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اسکولوں کے درمیان ٹورنامنٹس کا ذکر تو جیسے سننے کو ہی نہیں ملتا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹی سطح پر بھی کھیلوں کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دی جاتی۔ لاہور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان کرکٹ میچ کھیل کا ایک بڑا موقع ہوا کرتا تھا لیکن افسوس کہ اب ایسا کچھ سننے کو نہیں ملتا۔

حال ہی میں ایک عوامی تقریب کے موقعے پر نجم سیٹھی نے بھی اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہوجانے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے مختلف کھیلوں میں بُری کارکردگی کو اسکول اور کالج سطح پر ہونے والی کھیلوں کی سرگرمیوں کے خاتمے سے جوڑا۔ اسکول کرکٹ ٹیلنٹ پیدا کرنے والی نرسری ہوا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ کالج اور یونیورسٹیاں ایسے کھلاڑی پیدا کر رہی تھیں جنہوں نے عالمی میدان میں اپنا نام روشن کیا۔ لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے۔

مسئلے کا تعلق صرف کھیلوں کی کارکردگی سے نہیں بلکہ مسئلہ اس سے زیادہ گہرا اور وسیع ہے۔ کھیلوں کی سرگرمیاں نہ صرف جسمانی ساخت کو بہتر بناتی ہیں بلکہ یہ ذہنی صلاحیتوں کو بھی بڑھاتی ہیں اور ایک بہتر کمیونٹی وجود میں لانے کی وجہ بھی بنتی ہیں۔ کمیونٹی سطح کی سرگرمیوں سے ہی لوگ یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہے، کھیلنا ہے اور آپس میں جڑے رہنا ہے۔ ایک ہی ٹیم میں ایک ساتھ کھیلنے کی وجہ سے یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ انفرادی اور اس کے ساتھ اجتماعی طور پر کس طرح کارکردگی پیش کرنی ہے۔ وہ یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح تعاون قائم کیا جاتا ہے اور کس طرح مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کا تعلق بڑی حد تک بہتر شہری زندگی سے ہے۔

پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہورہا ہے اور ہم ابھی آبادیاتی مراحل (demographic transition) کے ابتدائی مرحلوں میں ہی ہیں۔ اگلی چند دہائیوں تک نوجوانوں کی تعداد میں یہ اضافہ جاری رہے گا۔ اگلے کئی انتخابات، اس کے علاوہ دیگر بڑے اور اہم قومی فیصلوں میں اس ملک کے نوجوانوں کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ ان کی بڑی تعداد ہر آنے والے جمہوری فیصلہ سازی کے عمل پر بھاری ثابت ہوگی۔

نوجوانوں کو پڑھا لکھا اور فن سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ان نوجوانوں کے لیے اتنی ہی اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ وہ یہ سیکھیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ کس طرح ایک ہی جگہ پر ایک ساتھ مل جل کر زندگی گزارنی ہے اور کس طرح ایک ایسا ماحول وجود میں لانا ہے جو انہیں اور معاشرے میں دیگر لوگوں کو آگے بڑھنے اور خوشحال زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرسکے۔ لیکن اگر نوجوانوں کے درمیان میل جول نہ ہو، معاشرے سے معنی خیز واقفیت نہ ہو اور اپنی زندگیوں، اپنی کمیونٹی کی زندگی اور اپنے ملک کے بارے میں فیصلہ سازی میں شرکت کے مواقع دستیاب نہ ہوں تو پھر یہ سب کچھ کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے؟

کھیل ہمارے نوجوانوں کو مؤثر و معنی خیز انداز میں مصروف رکھنے کے لیے تعلیم جتنا ہی اہم عنصر ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر اس سب کو ممکن بنانے کے لیے ہمیں ایک بار پھر مقامی سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے سوچنا ہوگا۔ اسکولوں کو کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز بننا پڑے گا۔ مقامی حکومتوں اور کمیونٹیوں کو آگے آنا ہوگا اور مطلوبہ مدد فراہم کرنی ہوگی۔ وسائل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن عزم اور کھیلوں کے انعقاد کی صلاحیت پیسوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ مقامی حکومتوں کو کھیلوں کے لیے (میدانوں، ٹریکس، کورٹس و دیگر) جگہیں فراہم کرنا ہوں گی مگر ان کا انتظام اسکولوں اور/یا مقامی گروپس کے ہاتھوں میں سونپنا ہوگا۔

اس حوالے سے پبلک پرائیوٹ شراکت داری سب سے بہتر رہے گی۔ اگر مقامی حکومتیں کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے جگہیں فراہم کرسکتی ہیں تو اسکول، کالج اور مختلف کلب، مقامی کمیونٹی کی معاونت کے ساتھ ان جگہوں کا انتظام بھی سنبھال سکتے ہیں اور ٹورنامنٹ، ٹریننگ اور ایسی دیگر سرگرمیوں کا انعقاد بھی کرواسکتے ہیں۔

میں کم از کم ایک ایسی سماجی انٹرپرائیز کے بارے میں جانتا ہوں جو منافع بخش اور مستقبل بنیادوں پر مقامی کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرواتی ہے۔ ان کا سب سے اہم مسئلہ بہتر میدانوں تک رسائی کا نہ ہونا ہے۔ اگر انہیں میدانوں تک رسائی حاصل ہوجائے، بھلے ہی انہیں پیسے کیوں نہ ادا کرنے پڑیں، تو یوں وہ ان مقابلوں کے ذریعے بڑی آسانی سے مالی مدد بھی حاصل کرسکیں گے۔ مگر ان کا اہم مسئلہ میدانوں کے استعمال کی اجازت حاصل کرنا ہے۔

ہمیں کھیلوں کا زمانہ دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے سماجی رابطوں اور ان صلاحیتوں کی تربیت میں ایک بڑا کردار ادا کرسکتا ہے جو ہم اپنے نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے کو زندہ کرنے کے لیے بہت سارے وسائل کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مقامی سطح پر انتظام کاری کی صلاحیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس بات سے ہی یہ ظاہر ہوسکتا ہے کہ انتظام کرنا اور عمل انگیز (catalyse) ہونا کیوں اتنا مشکل کام رہا ہے۔


یہ مضمون 11 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں