مؤرخین تاریخ لکھتے وقت یہ تجزیہ ضرور کریں گے کہ آخر کیوں امریکا کو زبردست فوجی قوت اور تباہ کن گولہ بارود (یاد کیجیے کس طرح ٹرمپ نے عمران خان کو اتراتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں چاہوں تو ایک ہفتے میں افغانستان کا خاتمہ کرسکتا ہوں‘) دستیاب ہونے کے باوجود 1945ء سے اب تک کے ہر تنازع کو زخمی حالت میں چھوڑ کر جانا کیوں پڑا۔ وہ زمانہ گیا کہ جب ایک امریکی (ایلن ڈیولس) ایران میں وزیر اعظم مصدق کے خلاف بغاوت پیدا کرکے رضا شاہ پہلوی کو امریکی کٹھ پتلی کے طور پر تخت پر براجمان کروانے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔
موجودہ وقت کی بات کریں تو صدر ٹرمپ کی جانب سے وینزویلا کے موجودہ رہنما نکولس مادورو کی جگہ باغی رہنما جوآن گوائیڈو کے حق میں حمایت بالکل بے اثر نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تذبذب کے شکار ٹرمپ نے اپنی تمام تر محبتوں کا قبلہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو بنایا ہوا ہے۔
9/11 سے لے کر اب تک پاکستان امداد اور فوجی ادائیگیوں کی صورت میں 30 ارب ڈالر سے زائد رقم وصول کرچکا ہے۔ (امریکا میں مقیم پاکستانی ہر سال اوسطاً محض 25 لاکھ ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں۔) ایک بار جب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں مہم ختم ہوجائے گی تو پھر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی کیا قدر و قیمت رہ جائے گی؟ امریکا سعودی ایران کے درمیان کشیدگی میں ہم کس کا ساتھ دیں گے؟
ویسے آج کل تاریخ کی مثالوں کا جائزہ لینے کا زیادہ رواج نہیں ہے لیکن دسمبر 1949ء میں چیئرمین ماؤژی تنگ اور کامریڈ اسٹالن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ماؤ نے اسٹالن سے پوچھا کہ عالمی امن کب تک برقرار رکھا جاسکتا ہے؟ اسٹالن نے دُور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ، چین کو ’کسی قسم کا فوری خطرہ لاحق نہیں ہے۔ جاپان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں ابھی وقت ہے اس لیے وہ جنگ کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ امریکا جنگ جنگ چلاتا رہتا ہے لیکن اسے جتنا ڈر جنگ سے لگتا اتنا کسی چیز سے نہیں لگتا۔‘
تو کیا اب ہم ایک پُُرامن نسل کے حقدار نہیں ہیں؟
یہ مضمون 25 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔