اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ماضی میں خلافِ ضمیر کام کرنے والے سربراہان کا چہرہ سامنے لاکر ایک بڑا کام کر رہی ہے جو ایک ایسا پاکستان وجود میں لائے جس میں صرف ان کے ذاتی مفاد کو تحفظ حاصل ہوتا تھا۔
گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والے حکومتی اخراجات پر ہی نظر ڈال لیجیے، ان میں 500 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس دیوہیکل اخلاقی ناکامی کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔
ایک ایسا ملک جہاں کبھی انقلاب نہیں آیا، قومی مزاحمت نہیں ہوئی، کسی ایک طبقے کی جانب سے اپنے حقوق کی خاطر طویل المدتی جدوجہد نہیں کی گئی، سماجی مہم نہیں چلی اور نہ ہی کوئی غیر معمولی رہنما آیا، یعنی ایسا کوئی عمل نہیں ہوا جو تاریخ ساز سماجی تبدیلی کا باعث بنتا ہو، وہاں موجودہ احتساب اور ٹیکس مہم مذکورہ عوامل کا زیادہ اچھا متبادل نہ سہی لیکن ایک اچھی شروعات ضرور ہے۔
ہمیں کچھ سیکھنا ہے تو دیگر ملکوں کا رخ کرنا ضروری نہیں، بلکہ ملک کے اندر ہی بے پناہ ٹیلنٹ اور وہ غیر معمولی علم موجود ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کون سے عناصر تکلیف سے دوچار کرتے ہیں۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیسے کرنا ہے۔ ہمیں جس چیلنج کا سامنا ہے وہ اقتصادی نہیں بلکہ وجودی ہے۔
یہ مضمون یکم اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔