لکھاری ماہر تعلیم ہیں اور مذہب و فلسفہ کے موضوعات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
لکھاری ماہر تعلیم ہیں اور مذہب و فلسفہ کے موضوعات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

مذہب اور سائنس کے بارے میں مباحثے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ مباحثہ کسی تکنیکی معاملے کے بارے میں نہیں بلکہ علوم کے دو جہانوں کے بارے ہے، یعنی ایک مذہبی اور دوسرا سائنسی علم۔ ان دونوں کے درمیان اصل ٹکراؤ نظریہ علم کا نظر آتا ہے، اور دونوں ہی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ انسانی زندگی پر ان کا غلبہ زیادہ ہے۔

علماء عمومی طور پر اس بات پر نازاں ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا نظام ہے جس میں خدا کا عمل دخل ہے، جو سچا ہے اور جو خرابیوں اور رد و بدل سے پاک ہے۔

وہ مذہبی عقیدوں کے فہم، مفہوم اور عمل کے حوالے سے عام آدمی کے خیالات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

مذہبی رہنما سائنسی پیش رفتوں کی مخالفت کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفتیں مذہبی نظریات کے منافی ہیں، کیونکہ ان سے ایمان والے بھٹک جائیں گے۔ وہ ایسا شاید مذہب کے ساتھ اپنے خلوص اور ممکنہ طور پر ایمان والوں کو غلط راستوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کرتے ہوں۔

سائنس سے انکار کے لیے ان کے پاس مذہبی نوعیت کے خیالات ہوتے ہیں جو مرکزی موضوع سے ہٹ کر منطق (discursive reason) اور زیادہ تر تجربات و مشاہدات پر مبنی شواہد پر مشتمل نہیں ہوتے۔

وہ مذہبی فہم کے لیے مذاہب کی سائنسی تاریخ، سماجیات، نفسیات اور بشریات وغیرہ جیسے جدید علوم کو خاطر میں نہیں لاتے۔ رضا اسلن کی کتاب، God: a human history ایک شاندار کام ہے۔ اس کتاب میں اس بات کو موضوع بنایا گیا ہے کہ انسانی تاریخ میں مذہبی تحاریک (religious impulses) کی ارتقا کس طرح ہوئی ہے۔

دوسری طرف سائنسدان سائنس کو علوم کے ایک ایسے جہان کے طور پر دیکھتے ہیں جو زبردست حد تک انسانی منطق اور تجربے و مشاہدے کے قابل ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کھڑا ہے۔

ان کے لیے سائنس خود تصیحی اور ارتقائی عمل سے گزرتا رہتا ہے، اپنے اندر تبدیلیاں لاتا ہے اور استقرائی مشاہدات اور تجربات کے ذریعے حاصل ہونے والے ہر نئے شواہد کی پیروی کرتا ہے۔ کسی علم کو پیدا اور جانچنے کے لیے وہ یہی طریقہ کار اپناتے ہیں۔

دوسری طرف مذہبی ذہنیت سائنسی دریافتوں کی اس تغیر پذیر فطرت کو ایک کمزوری کے طور پر دیکھتی ہے، اور اپنی دائمی اور غیر تغیر پذیر ’حقیقتوں‘ پر نازاں ہوتی ہے۔ وہ تبدیلی پر پائیداری کو فوقیت دیتی ہے، اور یہ ذہنیت مذہبی عقائد پر مبنی ہوتی ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو تقریباً تمام ہی مذاہب میں سائنس اور سائنسدانوں کی بہت زیادہ مخالفت ہوتی رہی ہے۔ یہ مخالفت سائنسدانوں سے تعصبی سلوک اور تشدد کی حد تک نظر آتی ہے، کیونکہ انہیں ایسے ’گمراہ‘ انسانوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جو مذہبی عقیدوں کی اطاعت نہ کرنے پر بضد تھے۔

ایسا اکثر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ سائنس کو پرکھنے کے لیے مذہبی نظریات پر مبنی علوم کا استعمال کرتے ہیں، یہ تو ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے سائنسدان مذہب یا روحانیت کو اپنے تجرباتی طریقہ کار کے تحت پرکھنے لگ جائیں۔

بات اتنی سی ہے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان مباحثہ ہمیں مشترکہ جواز تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ کم از کم میرا تو یہ کہنا ہے کہ مذہب اور سائنس کے نظریہ علم کے طریقوں کو مختلف انداز میں برتا جائے کیونکہ ان دونوں کو اپنے سائنسی اور مذہبی علوم کو ثابت (methodology-طریقہ کار) اور پرکھنے (معیارِ حقیقت) کے لیے مختلف طریقے درکار ہیں۔

ہمیں اپنے تصورات و خیالات کو کم از کم اتنا ضرور بدلنا ہوگا کہ ہم ان تضادات پر جائزہ لینے کا حوصلہ پیدا کرسکیں تاکہ کسی بھی علم کو سمجھنے کے لیے ہم ایک ساتھ دونوں علوم کے دو مختلف پرکھنے کے معیارات کا استعمال کرنے کے بجائے ہر علم کو اسی کے زاویہ نظر سے دیکھیں۔

سائنس کی ہر شاخ میں ہونے والی تحقیق میں مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح، مذہب کے اندر بھی قانون یا روحانیت، زبان یا ارکان جیسی مختلف شاخوں میں تحقیق کے لیے مختلف طریقہ کار مطلوب ہوتے ہیں۔

چنانچہ جب علماء سائنس کو علمِ مذہب یا نظریے کو استعمال کرتے ہوئے پرکھتے ہیں، تب وہ وہی غلطی کر رہے ہوتے ہیں جو مذہب کو سائنسی طریقہ کار کے تحت پرکھنے والے سائنسدان کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ دونوں علوم کے ساتھ مختلف انداز کا سلوک برتا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو کم تر نہ سمجھیں بلکہ انسانی فلاح کے لیے ہر ایک علم میں موجود منفرد کردار کو تسلیم کریں۔

ملک کے اندر اور باہر لیکچروں کے دوران اکثر نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’آخر مذہب نے گزشتہ 500 برسوں کے دوران انسانی ترقی میں کون سا کردار ادا کیا ہے؟‘ دراصل وہ یہ سوال شاندار سائنسی ایجادات اور دریافتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ میں جواباً ان سے سوال کرتا ہوں کہ، ’آپ مذہب سے کیا امیدیں وابستہ کرتے ہیں؟ کیا مذہب سے تکنیکی انقلاب لانے کی توقع کرتے ہیں؟‘

دراصل یہ فطری امر ہے کہ جو کام سائنس کرتی ہے وہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی ممکن ہے، تاہم انسان کی گہرائیوں میں مذہب کے ذریعے جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔

تاہم، اگرچہ عالیشان تہذیبی کامیابیوں کے پیچھے سائنسدانوں کا مرکزی کردار رہا ہے لیکن اس کے اندر شامل ’مذہبی‘ تحریک کو جھٹلانا ہرگز ممکن نہیں، جیسے تہذیبی فن اور شاندار تعمیرات، ادبی اور بیش قیمتی ادب و دیگر خصوصیات کے پیچھے روحانیت پر مبنی ترغیب۔

لہٰذا مذہب سے بڑے بڑے تکنیکی انقلاب لانے جیسی توقعات کرنا بالکل غلط ہے۔ مذہب کا اہم مقصد ٹیکنالوجی کو آگے لے جانا نہیں بلکہ ’روحانی انجینئرنگ‘ کرنا، تبیلیاں لانا اور لوگوں کو پابند اخلاقیات بنانا ہے۔

مجموعی طور پر میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی مسائل کو صرف اور صرف مذہب تک محدود رہتے ہوئے حل کرنے کی خاطر ہمیں سائنسی طریقوں کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ہمیں مذہب کو اس لیے مسترد کردینا چاہیے کہ یہ سائنس کی طرح کام نہیں کرتا۔

ہمیں دونوں کو اہمیت دینی چاہیے کیونکہ انسانی تمناؤں کے دو مختلف زاویے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے ان دونوں کی یکساں حیثیت میں ضرورت ہوتی ہے۔

جس طرح قرآن مجید میں بیان ہے کہ، ’پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی‘، تو لہٰذا ہمیں مذہب اور سائنس دونوں کے بہترین پہلوؤں کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیے اور علماء حضرات مذہب اور سائنس کے درمیان پل کا کام انجام دیں۔


یہ مضمون 26 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

غلام سرور Jul 29, 2019 03:13am
گتا ھے کہ مذہب کا چشمہ اتارے بغیر ہمارے لوگ سائینس کو دیکھ کر تبصرہ بھی نہیں کر سکتے، سائینس کو دیکھنا، سمجھنا، پرکھنا اور کر کے نئی دریافت لانا تو دُور کی بات ہے۔ سو ہزار برس سے امُت جہالت کے اندھیرے میں غوطے لگا رہی ہے اور ڈوبنے میں کوئ کسر باقی نہیں۔
عثمان ارشدملک Jul 29, 2019 08:36am
آپ کا مضمون پڑھ کر لگا آپ مذہب سے تھوڑی آگاہی رکھتے ھیں مگر مکمل آگاہ نہیں ھیں