سینیٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن رہنماؤں کی بیٹھک ہوئی —فوٹو: ڈان نیوز
اس تقریب میں سینیٹر بیگم کلثوم پروین اپنی نشست سے اٹھ کر شہباز شریف کے پاس جانے لگیں تاکہ وہ یہ وضاحت پیش کرسکیں کہ آخر وہ حکومت کے عشائیے میں کیوں گئی تھیں، مگر شہباز شریف نے انہیں اپنی طرف آنے سے روک دیا اور ان کی وضاحت سننے سے انکار کردیا، جس پر کلثوم پروین کو سخت شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
جس وقت شہباز شریف اپنے برنچ میں ارکان سے مخاطب تھے اس وقت چیئرمین سینیٹ بھی اپنے چیمبر میں پہنچ چکے تھے، جبکہ حکومت کے ارکان کا اجلاس پختون خواہ ہاؤس میں ہورہا تھا۔ جبکہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال وزیرِاعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔ وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق انتہائی پُراعتماد انداز میں صحافیوں کو بتارہے تھے کہ ایک، دو گھنٹے میں پتہ لگ جائے گا کہ اپوزیشن جیتتی ہے یا نہیں؟
وقت: 12 بج کر 31 منٹ 12 بج کر 31 منٹ تک شہباز شریف کے برنچ میں اپوزیشن کے سینیٹرز کی تعداد 60 ہوچکی تھی۔ اس برنچ میں جب ووٹ دینے کے لیے طریقہ کار پر بات ہورہی تھی تو چند سینیٹرز نے اپنے پرس اور جیبیں ٹٹولیں تو ان کو خیال آیا کہ وہ سینیٹ کے جاری کردہ شناختی کارڈ تو گھر بھول آئے ہیں۔ اس دوران مشاہداللہ خان، رحمان ملک، مولانا غفور حیدری، رخسانہ زبیری اور دیگر نے اپنے ملازمین کو دوڑایا کہ وہ گھر جائیں اور کارڈ لے آئیں۔
اس برنچ میں جو پہلو واضح طور پر نظر آیا وہ پہلو تھا 'شک' کا، جس کا کافی دنوں سے اندرونِ خانہ ذکر ہورہا تھا۔ کافی لوگ ایک دوسرے سے کھچے کھچے بھی نظر آرہے تھے، لیکن ہر کوئی یہی تاثر دینے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ تو اپنی پارٹی کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اپنی پارٹی کو ہی ووٹ دے گا۔
وقت: 12 بج کر 50 منٹ 12 بج کر 50 منٹ پر برنچ لگنا شروع ہوا اور 1:30 بجے تک چلتا رہا۔ جب برنچ ختم ہوا تو شہباز شریف منسٹر انکلیو میں اپنے گھر چلے گئے اور 4:30 بجے اس وقت واپس پارلیمنٹ ہاؤس آئے جب اپوزیشن کی تحریک عدمِ اعتماد کی قرارداد مسترد ہوچکی تھی۔
وقت: 2 بج کر 05 منٹ بلاول بھٹو زرداری 2 بج کر 5 منٹ پر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور اپنے چیمبر میں کچھ دیر رکنے کے بعد سیدھے سینیٹ کی کارروائی دیکھنے کے لیے مہمانوں کی گیلری میں آکر بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ سابق وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف بھی تھے۔ مہمانوں کی گیلری میں وزیرِاعلیٰ بلوچستان جام کمال، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، چیف وہپ عامر ڈوگر سمیت حاصل بزنجو اور صادق سنجرانی کے مہمان بھی موجود تھے۔
وقت: 2 بج کر 13 منٹ سینیٹ کا اجلاس 2 بج کر 13 منٹ پر شروع ہوا اور 5 بج کر 23 منٹ پر ختم ہوا۔ صدرِ مملکت نے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے لیے بیرسٹر محمد علی سیف کو پریزائڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔ سیکریٹری سینیٹ محمد انور نے کارروائی کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے پریزائڈنگ افسر کو چیئرمین کی نشست پر بیٹھنے کا کہا۔
پھر راجا ظفرالحق نے تحریک عدمِ اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے لیے تحریک پیش کی۔ جس پر پہلے ووٹنگ کرائی گئی۔ رولز کے مطابق کسی بھی تحریک کی منظوری کے لیے پورے ایوان کی ایک چوتھائی تعداد کا ایوان میں ہونا ضروری ہے، لیکن حیران کن طور پر 64 ارکان اس تحریک کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ ارکان کی تعداد کا اعلان ہوا تو ڈیسک بجائے گئے اور اپوزیشن نے اس گنتی کو اپنی قرارداد کی کامیابی قرار دیا۔
2:40 پر پہلا ووٹ پڑا چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کی قرارداد پر پولنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ اپوزیشن کی طرف سے جاوید عباسی اور حکومت کی طرف سے نعمان وزیر پولنگ ایجنٹ مقرر کیے گئے۔ 2 بج کر 40 منٹ پر پہلا ووٹ حافظ عبدالکریم نے، دوسرا مولانا عبدالغفور حیدری اور تیسرا ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم نے کاسٹ کیا۔
وقت: 3 بج کر 58 منٹ 3 بج کر 58 منٹ پر پولنگ کا عمل مکمل ہوا۔ 100 ارکان نے اس انتخاب میں حصہ لیا جبکہ 3 ارکان مشتاق احمد، سراج الحق اور چوہدری تنویر ایوان میں موجود نہیں تھے، اور ان کے نام 3، 3 بار پکارے گئے۔
وقت: 4 بج کر 18 منٹ سینیٹ سیکریٹری کے روبرو دونوں فریقین کے پولنگ ایجنٹ موجود تھے۔ روسٹرم پر 3 باکس رکھے گئے۔ جو تحریک عدمِ اعتماد کی حمایت، مخالفت اور مسترد شدہ ووٹ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اس تاریخی نتائج کو دیکھنے کے لیے مہمانوں اور صحافیوں کی گیلریاں مکمل طور پر بھر چکی تھیں۔ گنتی کے پورے عمل کو صحافی خصوصی طور پر دھیان سے دیکھ رہے تھے۔ جو ووٹ جس باکس میں جاتا وہ صحافی اپنے پاس درج کرلیتے۔ جیسے ہی گنتی مکمل ہوئی تو حکومتی پولنگ ایجنٹ نعمان وزیر نے قائد ایوان شبلی فراز کو دوڑ کر ان کی نشست پر جاکر مبارک باد دی اور حکومتی بینچوں سے نعرے بازی شروع ہوگئی۔
’ایک سنجرانی سب پر بھاری‘ کے نعروں کے ساتھ حکومتی بینچوں پر موجود ارکان اپنی نشستوں سے اٹھے اور صادق سنجرانی کو مبارک باد دینے لگے۔
پریزائڈنگ افسر بیرسٹر محمد علی سیف نے اعلان کیا کہ 50 ووٹوں سے تحریک عدمِ اعتماد کی قرارداد مسترد کی جاتی ہے۔ قرارداد کی مخالفت میں 50 ووٹ پڑے، جن میں سے 5 ووٹ مسترد ہوئے۔ ذرائع کے مطابق جو 5 ووٹ مسترد ہوئے ان پر ایک ہی انداز میں اسٹیمپ دو جگہ لگی ہوئی تھی۔