جب ہم ذبح ہوں گے، جانے کہاں ہوں گے

ہم مسلمانوں کی گوشت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اگر کچھ دن پیٹ میں بوٹی نہ جائے تو ایمان خطرے میں پڑتا محسوس ہوتا ہے، اور دل ہی دل میں خود کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں:
دال سبزی پہ گزر، گوشت کی ’فقدانی‘ ہے
تم مسلماں ہو، یہ انداز مسلمانی ہے؟
ہم حلال جانوروں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو بدعنوان حکمران قومی خزانے اور آمرانہ حکومتیں حزبِ اختلاف کے ساتھ کرتی ہیں، یعنی گوشت تو گوشت دل، گردہ، کلیجی، پھیپھڑا، سری، پائے، آنتیں کچھ نہیں چھوڑتے۔ ہمارے اسی شوق کے پیشِ نظر بعض قصائی گدھے کے گوشت کی ہمارے معدوں تک رسائی کرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب انہیں کوئی کیسے سمجھائے کہ بھیا: گوشت ہوتا نہیں ہر گھاس چبانے والا۔
گوشت کو ہمارے ہاں جو قدر منزلت حاصل ہے اسی کے باعث بقرہ عید کو بڑی عید کہا جاتا ہے۔ ہم چند سال پہلے تک عیدالاضحیٰ کے لیے بڑی عید کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے تھے، مگر اب ہم بھی اسے بڑی عید کہتے ہیں اور ہمارے ایسا کہنے کی وجہ گوشت نہیں کچھ اور ہے۔
دراصل کراچی کا شہری ہونے کے ناتے ہماری بقرہ عید سے بڑی یادیں وابستہ ہیں، سو جب بھی یہ عید آتی ہے ہمیں بہت کچھ یاد آجاتا ہے۔
کیا زمانہ تھا صاحب! جس کی یاد آتے ہی دل پر ’بُغدا‘ سا چل جاتا ہے۔ جب بقرہ عید قریب آتے ہی ہر ایک کو جانور لینے کی فکر ہوتی تھی، اہلِ خانہ کے کپڑے بنانے کی پریشانی ہوتی تھی، قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے قصاب کے نخرے اٹھانے کا خیال دل کو بے کل کیے رکھتا تھا، مگر ایک طرف سے مکمل اطمینان ہوتا تھا، یعنی یہ طے تھا کہ کھال کس کو دینی ہے۔
ہر ایک جانتا تھا کہ ’جس‘ کو کھال دینی ہے اسے نہ دی تو اپنی کھال بچانا مشکل ہوجائے گا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم کراچی والوں کو اپنی کھال میں رہنا پڑتا تھا، شہر کی قیادت کے اعلانات، ہدایات، فرمودات، خطابات اور حرکات پر سُکوت لازم تھا، اور بال کی کھال نکالنا کسی دن بوری سے نکلنے کا سبب بن سکتا تھا۔
یوں سمجھ لیں کہ اس دور میں بس 2 طرح کے لوگ ہی اس شہر میں اطمینان اور سکون سے رہ سکتے تھے، ایک جو اپنی کھال میں مست ہوں اور دوسرے جو ’حق پرست‘ ہوں۔
حق پرستوں کو حق پرست کہنے کا سبب یہ ہے کہ یہ ’حق بہ حق دار رسید‘ کے قائل تھے، مطلب یہ کہ اپنا حق لے کر رسید لازمی دیا کرتے تھے، اکثر تو رسید پہلے پکڑا دیتے تھے جس پر ان کا حق لکھا ہوتا تھا۔ اس رسید کی معذرت کے ساتھ واپسی کی صورت میں کم از کم جھانپڑ رسید کیا جاتا تھا اور زیادہ سے زیادہ لوگ رسید واپس کرنے والے کے بارے میں سرگوشی کر رہے ہوتے تھے ’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔‘
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔