سائنسدانوں کا جسم میں نیا عضو دریافت کرنے کا دعویٰ
یہ عام نہیں جب سائنسدان جسم کا بالکل نیا عضو دریافت کرلیں مگر سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی ایک تحقیقی ٹیم نے جلد کے نیچے ایک نیا حصہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
درحقیقت یہ جلد کے نیچے خلیات کا ایسا نیٹ ورک ہے جو درد کے احساس دلاتا ہے جو کہ صدیوں سے آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود اوجھل تھا۔
ویسے 2017 تک مانا جاتا تھا کہ انسانی جسم میں 78 اعضا ہیں مگر پھر میسینٹری (آنتوں کو معدے کے بیرونی حصے سے جوڑنے والی جھلی) کا اضافہ ہوا جس کے بعد یہ تعداد 79 ہوگئی جبکہ گزشتہ سال بھی ایک عضو دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تھا تاہم ابھی تک اسے آفیشل حیثیت نہیں دی گئی۔
کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کے محققین نے اس نئے عضو کو دریافت کیا اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسے خصوصی خلیات ہیں جو درد کا احساس کرنے والے اعصابی خلیات کے گرد ہوتے ہیں جو جلد کی اوپری تہہ میں تک درد کا احساس دلاتے ہیں۔
آسان الفاظ میں چوٹ لگنے پر جب آپ کے تکلیف سے بھری آواز نکلتی ہے تو اس کے پیچھے یہ نیا عضو ہوتا ہے۔
محققین کے مطبق اس نئی دریافت سے درد کے بارے میں نئی تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا اور اس سوال کا جواب جاننے میں مدد ملے گی کہ کیا یہ خلیات ہی دائمی درد کا باعث بننے والے امراض کی اصل وجہ تو نہیں۔
اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جلد پر تکلیف دہ احساس کی وجہ مخصوص اعصابی خلیات کے حساس حصوں کی موجودگی ہے کیونکہ ان پر وہ حفاظتی تہہ نہیں ہوتی جو دیگر خلیات میں ہوتی ہے۔
اب طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع مقالے میں محققین نے بتایا کہ انہوں نے لیبارٹری میں جلد کی سطح کے قریب موجود خلیات کا تجزیہ کیا تو انہیں کچھ عجیب محسوس ہوا کیونکہ یہ شوان (Schwann) نامی خلیات ایسا لگتا تھا جیسے اعصابی خلیات کے ساتھ ایک نیٹ ورک بناتے ہیں جو کہ جسم کے دیگر حصوں میں موجود اعصابی خلیات سے بالکل مختلف عمل ہے۔
جب چوہوں پر مزید تجربات کیے گئے تو محققین نے دریافت کیا کہ یہ شوان خلیات درد کے احساس میں براہ راست اور اضافی کردار ادا کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ خلیات کسی چیز سے ٹکرانے یا کچھ چبھنے پر درد کا احساس دلاتے ہیں مگر سردی یا گرمی پر حرکت میں نہیں آتے، چونکہ یہ خلیات جلد کے نیچے ہر جگہ پھیل کر ایک نظام سے منسلک ہیں تو سائنسدانوں نے زور دیا ہے کہ یہ نظام ایک عضو تصور کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ درد کی حساسیت کا احساس دلانے والا عضو ہے جسے ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے، جو آکٹوپس کی شکل کا ہوتا ہے۔