اس جنگ کے بارے میں دیگر کے علاوہ مرحوم مارشل نور خان اور اصغر خان جیسے اس جنگ کے ہیروز ایسی بہت سی باتیں لکھ /بتا چکے ہیں جن پر میں تبصرہ کرسکتا ہوں۔ لیکن ایک بچے کے طور پر میں بے حد خوش تھا کہ ہم وہ جنگ فیصلہ کن انداز میں جیت چکے ہیں۔ پھر کئی برسوں بعد لوگوں کو آپریشن گرینڈ سلیم کے بارے میں سننے کو ملا۔
1960 کی دہائی کرونی سرمایہ داری کے نظام کا بھی دور تھا جو امریکا سے آنے والے ڈھیروں ڈالروں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا، ڈالروں کی آمد کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے سرد جنگ کے مختصر کے عرصے کے دوران ایک سیٹلائٹ ریاست بننے پر حامی بھری تھی۔ آپ کو بڑا بیر (پشاور) سے سویت یونین کی حدود میں داخل ہونے والے یو 2 طیارے کو تباہ کیے جانے کا واقعہ تو یاد ہوگیا۔
ملک میں دولت تو بہت آئی لیکن چند ہاتھوں میں ہی رہی، مزید وضاحت کے ساتھ کہیں تو یہ دولت 22 خاندانوں تک ہی محدود رہی۔ دولت کی مساوی تقسیم کی ایک بار بھی کوشش نہیں کی گئی، جس کے باعث حالات مزید بگاڑ کی طرف گئے۔ اسی طرح مسلمان قوم کی بنگالی اکثریت کے ساتھ امتیازی سلوک نے ایک بڑے سانحے کو دعوت دی۔
حال ہی میں میری نظر سے محترمہ فاطمہ جناح کی چند تصاویر گزریں جن میں وہ سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف نظر آئیں، اور آپ جانتے ہیں کہ ان کے برابر کون سی شخصیت کھڑی تھی؟ شیخ مجیب الرحٰمن۔ کیا (بنیادی جمہوریت کے ممبران کے ذریعے) منصفانہ صدارتی انتخابات کا انعقاد تاریخ کا رخ بدل سکتا تھا؟
ہم 1960 کی دہائی کو چاہے کتنے ہی اچھے لفظوں میں یاد کیوں نہ کریں لیکن ہمیں یہ بالکل بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی عرصے میں 1971 کے سانحے کے زیادہ تر بیج بوئے گئے تھے، اور یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں سویلین بالا دستی کو ایک حد تک باقاعدہ کنارے لگا دیا تھا۔
یہ مضمون 31 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔