آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پورے کا پورے پروگرام ایک بھاری ریونیو ہدف اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اکھٹا کرنے کے مشکل ہدف کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے۔ دیگر تمام معاملات ثانوی حیثیت کے ہیں۔
اس پروگرام پر عمل درآمد میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ عوام کی جیبوں پر بھاری پڑتا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کی عوام میں مقبولیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ بڑھتی قیمتوں، کم ہوتی ملازمتوں اور آمدن کے مواقع میں کمی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل کا اقتدار میں شامل افراد کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ ناپ تول کر جملے نہیں کہتے، مثلاً وہ یہ نہیں کہتے کہ ’خیر ہے یہ تو گزشتہ حکومت کا پیدا کردہ دباؤ ہے۔‘ بلکہ لوگ ایک دوسرے سے صرف یہ کہتے ہیں کہ، ’اقتدار میں جو لوگ پہلے تھے ان کے وقت میں حالات بہتر تھے۔‘ اور ان کا جملہ یہیں پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اقتدار میں بیٹھے افراد کو اس قسم کی ساکھ کو پیدا کرنے والی سیاست کو سنبھالنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہے۔
موجودہ حکومت میں شامل افراد کے لیے سنگین چیلنج وہ صلاحیتیں ہیں جو اس قسم کے سیاسی فیصلوں کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ عملی میدان میں صلاحیتوں کے مظاہرے کا وقت اب آچکا ہے، اور اسی جگہ پر عظیم عمران خان پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں، جس کا اندازہ ریڈ لیٹرز کے اجرا اور معیشت پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ملاقاتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس چیلنج کو عبور کرنے کے لیے صرف شعلہ بیانی اور لفاظی کافی نہیں ہوگی۔
یہ مضمون 12 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔