اسی طرح کسی کے مالی معاملات یوں زیربحث آسکتے ہیں، ’مسٹر ڈھماکے نے پچھلے 2 سال میں جو زمینیں خریدیں اور مکان بنائے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یقیناً ایک وقت ایسا آیا تھا کہ زمینیں اتنی سستی ہوگئی تھیں کہ بس ایک دن سگریٹ نہ پیو پیسے بچاکے زمین خرید لو، دوسروں کو اس ارزانی کی بھنک بھی نہ مل پائی، مسٹر ڈھماکے کی قسمت اچھی تھی جو انہوں نے دھڑادھڑ زمینیں خرید لیں اور امیر ہوگئے ان کی ایمانداری پر کوئی شک بالکل نہیں۔‘
رہی بات افواہ کی تو بقول شاعر:
بس تِرے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر
کیسے کیسے لوگ تھے بیمار، اچھے ہوگئے
یعنی داغوں کی طرح افواہیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ کم ازکم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں، جیسے یہ افواہیں کہ نوکریاں برسنے والی ہیں، اربوں پیڑ لگ گئے ہیں اور لاکھوں مکانات بننے کو ہیں، بھٹو زندہ ہے، دیکھو دیکھو شیر آیا، انقلاب آئے گا، اب راج کرے گی خلقِ خُدا، تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے وغیرہ۔ ان افواہوں کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے سے لوگوں کی آس بندھی رہتی ہے، آس کا بندھا رہنا ہی اچھا ہے ورنہ کُھل گئی تو افواہ سے زیادہ خود پھیل جائے گی اور کٹ کھنے بیل کی طرح ٹکریں مار مار کر افواہیں پھیلانے والوں کا یوں حُلیہ بگاڑے گی کہ وہ افواہ کے ساتھ ہاتھ پھیلانے کے قابل رہیں گے نہ گند پھیلانے کے۔