ایک خبر ہمارا دل افسردہ کیے ہوئے ہے۔ خبر کے مطابق فلپائن کے ایک قصبے بائنالونن کے میئر نے افواہیں پھیلانے اور کُھسرپھسر کرنے کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔

قصبے کے نئے قانون کے تحت افواہیں پھیلانے والے کو جُرمانہ دینا ہوگا اور 3 گھنٹے تک سڑک کی صفائی کرنی ہوگی۔ اگرچہ افواہ کی تعریف نہیں بتائی گئی ہے، تاہم قصبے کے میئر رامون گائکو کا کہنا ہے کہ قصبے کے رہائشیوں کے باہمی تعلقات یا ان کے مالی معاملات کے حوالے سے غیبت کرنا یا افواہ پھیلانا قابلِ تعزیر جرم تصور کیا جائے گا۔

بھلا بتاؤ، یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آدمی غیبت بھی نہ کرے، پھر فارغ وقت میں آخر کرے تو کیا کرے۔ یوں بھی غیبت تو ایک دوسرے کو یاد رکھنے کا بہانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے دوست اور کورنگی ڈھائی نمبر کے معروف دانشور، فلسفی اور مفکر بابوٹینشن کا قول ہے، ’اگر دنیا میں نام بنانا اور یاد رہنا ہے پیارے! تو لوگوں کے ساتھ اتنی بُری کر کہ کوئی تجھے بھول نہ پائے۔‘

موصوف خود اپنے ہی قول کی عملی تفسیر ہیں۔ کبھی کسی سے قرض لے کر واپس نہیں کیا، سو متاثرین کے گھروں میں ہر روز ان کا نام لیا جاتا ہے، مگر کچھ غیرانسانی ناموں کے ساتھ اور بڑے مقدس رشتوں اور نہایت ’نجس‘ افعال کو جوڑ کر، جسے عرف عام میں گالی کہا جاتا ہے۔

بابو ٹینشن کا قول زریں تو یاد رہنے کا گُر بتاتا ہے، مگر دوسروں کو یاد رکھنے کے لیے اکثر غیبت ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب کسی محفل میں ایسی باتوں میں کب تک دلچسپی رہ سکتی ہے ’لُڈن میاں بہت شریف ہیں، کسی خاتون کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے، جب بھی دیکھتے ہیں کَن انکھیوں سے دیکھتے ہیں‘،’کلن میاں کا بہت دنوں سے کوئی افیئر نہیں چلا، ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔‘ بات یہ ہے کہ اگر دو آدمی بیٹھ کر تیسرے کی تعریف کر رہے ہوں تو وہ موجود ہے یا مرحوم ہے، تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی کی غیرموجودگی میں اس کی تعریف کردی جائے تو صاحبِ تعریف کی وفات کی افواہ پھیل جاتی ہے، یہ غیبت ہی بتاتی ہے کہ موضوعِ گفتگو بننے والے صاحب یا خاتون زندہ ہیں اور خیریت سے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا سے سیاست اور فارغ لوگوں کی فراغت تک سب کو غیبت اور افواہوں ہی کا سہارا ہے۔ چنانچہ’محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا‘ کے بجائے کہنا چاہیے جو ’غیبت‘ نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ غیبت کرنے والا ہر ڈیڑھ دو گھنٹے کی جانے والی غیبت کے آخری دو سیکنڈ میں ’خیر ہمیں کیا‘ کا ٹکڑا لگا کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ یہ غیبت اس نے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کی بلکہ مفادِعامہ کی خاطر یہ فریضہ انجام دیا ہے، جبکہ بعدازغیبت ’کسی کو بتانا نہیں‘ کی ہدایت اور جواب میں ’ارے مجھے کیا پڑی‘ ہے کہہ کر اس ممانعت کی تکمیل کا ارادہ، دراصل ’جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھاسکتے نہیں‘ جیسے یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ہمیں قصبے بائنالونن کے باسیوں کی مشکل کا پورا احساس ہے۔ چلو افواہ پھیلائے بغیر تو وہ پھر گزارا کرلیں گے، لیکن غیبت کیے بنا تو یوں جیئیں گے ’جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں۔‘ ہم انہیں ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول زباں اب بھی تیری ہے جو غیبت کرنا ہے کرلے، بَک دے، جو بَکنا ہے بَک دے، پولس کے آجانے سے پہلے‘ کا مشورہ دے کر مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔

اُن کے لیے ہماری تجویز ہے کہ وہ اب غیبت نہ کریں بلکہ ہر ایک کے ’باہمی تعلقات‘ اور ’مالی معاملات‘ کا تذکرہ یوں کریں کہ وہ کسی زاویے سے بھی غیبت نہ لگے۔ مثال کے طور پر تعلقات کا ذکر یوں ہوسکتا ہے: ’مسٹر فلانے رات دو بجے مسز چمکی کے گھر سے نکلتے دیکھتے گئے، یقیناً وہ اپنی امی کو ڈھونڈنے وہاں گئے ہوں گے اور جاتے ہی پوچھا ہوگا، چمکی باجی! ہماری امی کہاں ہیں؟ مسز چمکی نے تلاش میں مدد دینے کے لیے انہیں اندر بلالیا ہوگا، جہاں وہ اپنی والدہ کو خاصی دیر تلاش کرتے رہے، اور جب یاد آیا کہ ان کا تو پچھلے سال انتقال ہوگیا ہے، تو گھر کی راہ لی۔‘

اسی طرح کسی کے مالی معاملات یوں زیربحث آسکتے ہیں، ’مسٹر ڈھماکے نے پچھلے 2 سال میں جو زمینیں خریدیں اور مکان بنائے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یقیناً ایک وقت ایسا آیا تھا کہ زمینیں اتنی سستی ہوگئی تھیں کہ بس ایک دن سگریٹ نہ پیو پیسے بچاکے زمین خرید لو، دوسروں کو اس ارزانی کی بھنک بھی نہ مل پائی، مسٹر ڈھماکے کی قسمت اچھی تھی جو انہوں نے دھڑادھڑ زمینیں خرید لیں اور امیر ہوگئے ان کی ایمانداری پر کوئی شک بالکل نہیں۔‘

رہی بات افواہ کی تو بقول شاعر:

بس تِرے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار، اچھے ہوگئے

یعنی داغوں کی طرح افواہیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ کم ازکم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں، جیسے یہ افواہیں کہ نوکریاں برسنے والی ہیں، اربوں پیڑ لگ گئے ہیں اور لاکھوں مکانات بننے کو ہیں، بھٹو زندہ ہے، دیکھو دیکھو شیر آیا، انقلاب آئے گا، اب راج کرے گی خلقِ خُدا، تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے وغیرہ۔ ان افواہوں کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے سے لوگوں کی آس بندھی رہتی ہے، آس کا بندھا رہنا ہی اچھا ہے ورنہ کُھل گئی تو افواہ سے زیادہ خود پھیل جائے گی اور کٹ کھنے بیل کی طرح ٹکریں مار مار کر افواہیں پھیلانے والوں کا یوں حُلیہ بگاڑے گی کہ وہ افواہ کے ساتھ ہاتھ پھیلانے کے قابل رہیں گے نہ گند پھیلانے کے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Bin Yamin Oct 02, 2019 02:19pm
جامعی صاحب تسی لاجواب ہو.. لکھتے رہو جیتے رہو
usman jamaie Oct 02, 2019 06:03pm
@ Bin Yamin shukria