لیکن انضمام کے رائیونڈ طرز حکومت کی سب سے نمایاں تنقید فاسٹ بولر شعیب اختر نے کی-
پارہ صفت، سرفراز نواز کی طرح سرکش، اختر بار بار انضمام کی حکمت عملی پر سوال اٹھاتے-
انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا، "مجھے زیادہ تر جو کرنے کو کہا جاتا میں اس کا الٹ ہی کرتا-" انہوں نے لکھا کہ انضمام اور جماعت، کھلاڑیوں کے حلق میں مذہب ٹھونس رہے تھے-
2007 تک، شاید شعیب اختر ہی وہ واحد کھلاڑی بچے تھے جو پرانے، اوباش اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے غیر مذہبی کلچر کی عکاسی کر رہا تھا- حالانکہ محمد آصف بھی وہیں تھے جنہیں حشیش اور بیئر خاصی پسند تھی-
جیسا کہ شعیب اختر قسط در قسط، غصّے کا اظہار کرتے رہے، جھگڑے کرتے رہے، ساتھ ہی منشیات اور شراب اور بے انتہا عورت بازی بھی چلتی رہی، لیکن ان سب کے بیچ انہوں نے ہمیشہ انضمام کا کم از کم ایک بیٹس مین کی حیثیت سے احترام ملحوظ رکھا-
ویسے ٹیم میں شعیب ہی ایک واحد کھلاڑی تھے جس تک ٹیم کے ساتھ چپکے ہوے جماعتی ارکان نے پنہچنے کی کوشش نہیں کی-
پاکستان کرکٹ صحافی، سمیح الدین نے یہ نوٹس کیا کہ 'یا تو وہ (جماعت کے ارکان) شعیب کے قریب جانے سے ڈرتے تھے یا پھر انہوں نے اس کا کوئی علاج نا پا کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا-"
ٹیم میں جماعت کی مداخلت کا آھستہ آھستہ پکتا ہوا، لیکن خاموش تنازعہ، آخر کار اس وقت آتش فشاں کی طرح پھٹا جب پاکستان ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے 2007 کے ورلڈ کپ سے خارج ہو گیا-
وہ آئر لینڈ کی نو آموز ٹیم سے بری طرح ہار گۓ اور پھر کوچ باب وولمر اچانک پراسرار حالات میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے-
شعیب اختر جو اس ٹیم کا حصّہ نہیں تھے، اس بات کا رونا رونے لگے کہ مذہب کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ کی وجہ سے بہت سے کھلاڑیوں کی توجہ کھیل سے ہٹ گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح مقابلہ کرنے کی خواہش اور جوش کھو چکے ہیں-
ٹیم کے میڈیا مینیجر، پرویز میر اور زیادہ تلخ تھے- ٹورنامنٹ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں، انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ بہت سے ٹیم ارکان گراؤنڈ میں آنے کے بجاۓ، باہر جا کر ویسٹ انڈین شہریوں کو مسلمان کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے- "کیا انہیں اسی بات کا معاوضہ دیا جاتا ہے؟"
انہوں نے پوچھا- اس نے یہ بھی کہا کہ وولمر نے انھیں یہ بتایا تھا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب نہیں دے پاتے کیوں کہ وہ یا تو عبادت کے لئے اٹھ جاتے ہیں یا فری تبلیغ کرنے نکل جاتے ہیں-
اس ناکامی کے بعد، پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کو تاکید کی کہ مذہب کو نجی معاملہ رکھیں اور میچ کے دوران مذہبیت کی نمائش پر پابندی لگا دی-
انضمام ریٹائر ہو گۓ لیکن جب 3 کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو، سرفراز نواز نے یہ کہا کہ "پچھلے کئی سالوں سے کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ، اخلاقی ریا کاری کا نمونہ بنی رہی ہے-"
حالات کچھ بہتر ہوئے جب 2011 میں مصباح الحق کپتان بنے-
ایک خاموش، پر سکون اور بے انتہا ذاتی شخص اور ٹیم میں مذہبی معاملہ بھی بلکل اسی طرح، خاموش، پر سکون اور (مکمل طور پر نہ سہی) لیکن ذاتی معاملہ بن گیا-
ترجمہ: ناہید اسرار