جلال الدین خوارزم اور سندھ کے ساتھ ان کا رویہ
قسمت کا کھیل بھی عجیب ہے۔ وہ بادشاہ جن کے سہارے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں جُڑی ہوتی ہیں، ان کا ایک غلط فیصلہ ان ہزاروں لاکھوں زندگیوں کی آنکھوں میں موت کا اندھیرا بھر دیتا ہے۔ وہ آنکھیں پھر کبھی چڑھتا سورج نہیں دیکھ پاتیں کہ حرفت اور طاقت جن کے پاس ہے وہ وقت کے بادشاہ ٹھہرے۔
گزری صدیوں کی زمین پر تیزتراری، حرفت اور طاقت کے گھنے جنگل ہی اگتے ہیں کہ گئے زمانوں کے ان گھنے جنگلوں میں آنکھیں موندنا بھی سانسوں کا سودا کرنے کے برابر ہے۔ بس ایک تپتی دوپہر ہے جو ہر وقت دُور دُور تک چھائی رہتی ہے۔ اب کیا کیجیے کہ ہمارے نصیب میں ان تپتی دردناک دوپہروں میں سفر کرنا ہی لکھ دیا گیا ہے۔
آج کا سفر گزشتہ سے مختلف اس لیے ہے کہ اس میں ہم فقط جنگ کے میدان اور معصوم شہریوں اور ان کے شہروں کو جلتے ہوئے دیکھیں گے۔ ان شعلوں اور بربادیوں سے ہم آنکھیں اس لیے نہیں موند سکتے کہ یہ سب ہمارا کل تھا۔ ہم اپنے کل اور اپنی تاریخ سے چاہ کر بھی آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔
سلطان شہاب الدین غوری اپنے بھائی سلطان غیاث الدین کی وفات (1202ء) کے بعد فیروز کوہ (تہران کا علاقہ) میں تخت پر بیٹھا، (یہ بھی ذہن میں رہے کہ ’علاؤالدین جہان سوز‘ (وفات 1156ء) غوری خاندان کا پہلا خود مختار حاکم تھا)۔