Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2019 05:44pm

بونیر میں بہتی ’دودھ‘ کی نہر

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کو جہاں قدرت نے بلند و بالا پہاڑوں، شفاف ندی نالوں، آبشاروں، میدانوں، برف پوش چوٹیوں اور جنگلات کے حُسن سے نوازا ہے وہیں ماربل جیسے خزینے سے بھی مالامال کیا ہے۔

بدقسمتی سے قدرت کی طرف سے اربوں کھربوں روپے مالیت کی اس رحمت کو حکمرانوں کی نااہلی اور غلفت نے صرف بونیر کے مقامی باشندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بونیر کے سیاحتی، مذہبی اور تاریخی مقامات پر آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی باعثِ زحمت بنا دیا ہے۔

ویسے تو ماربل کی صنعت کے متعدد پہلو ہیں اور ہر ایک پہلو پر الگ الگ تفصیلی طور پر لکھا جاسکتا ہے، جیسے ماربل کے کتنے ذخائر ہیں؟ ماربل کی کتنی اقسام ہیں؟ اس صنعت سے کتنے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے؟ ماربل کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے مسائل کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

مگر ہم یہاں ماربل کی صنعت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ان مسائل پر بات کریں گے جو نہ کسی تحقیق کے متقاضی ہیں اور نہ ہی ان پر ماہرین کی رائے مطلوب ہے، وہ بونیر کے باسیوں اور سیاحوں کے سامنے نہ صرف عیاں ہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں ان سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ مسائل حکومتی اقدامات سے باآسانی حل ہوسکتے ہیں۔

بے ہنگم انداز میں قائم ماربل کے کارخانے

اس وقت بونیر میں تقریباً ایک ہزار سے زائد ماربل کے کارخانے اور سیکڑوں ماربل کی کانیں موجود ہیں۔ گرد و نواح میں پھیلے ماربل کے ان خزینوں کو ایک جگہ اکھٹا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے لیکن بونیر کی مختلف مرکزی سڑکوں پر جا بجا ماربل کے کارخانوں کو بے ہنگم انداز میں قائم کرنے کی چھوٹ دینا انتظامیہ اور گزشتہ حکومتوں کی غلفت ہے۔

بونیر میں ماربل کا کارخانہ— فراز احمد خان

بونیر میں ماربل کا کارخانہ—فراز احمد خان

سواڑی بونیر کا مرکزی شہر ہے۔ اس مرکزی شہر کی 4 مرکزی سڑکوں میں سے ایک چغرزی نامی علاقے سے گزرتی ہوئی شانگلہ پار تک جاتی ہے۔ دوسری سڑک سوات کو جاتی ہے جبکہ تیسری سڑک بونیر کو صوابی اور مردان سے ملاتی ہے۔ کئی کلومیٹر تک پھیلی ان 4 مرکزی سڑکوں پر بڑے ہی بے ہنگم انداز میں ماربل کے کارخانے قائم کیے گئے ہیں۔

اگر ان کارخانوں کو ایک جگہ صنعتی زون بناکر قائم کیا جائے تو ان سڑکوں پر سفر کرنے والوں کو دھول مٹی کی اذیت سے بچایا جاسکتا ہے۔

خام ماربل سے لدا ٹرک—نصیب یار چغرزئی

کارخانے سے بہتا ماربل کیچڑ—نصیب یار چغرزئی

آبی حیات

ماربل کی صنعت سے سب سے زیادہ آبی حیات متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ یہاں ماربل کے کارخانوں سے خارج ہونے والا گدلا پانی بونیر کے ندی نالوں میں شامل ہورہا ہے جس کے آبی حیات پر بدترین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

پرانے وقتوں میں لوگ ٹانگوں اور ڈگر پُل پر کھڑے ہوکر شفاف نہر میں اٹکھیلیاں کرتی مچھلیوں کے نظارے کیا کرتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نہر سے مچھلیاں ہی نہیں بلکہ شفافیت بھی چلی گئی ہے اور اس کی جگہ ماربل کیچڑ کا بہاؤ نظر آتا ہے۔

بونیر کی نہر میں بہتا ماربل کیچڑ—نصیب یار چغرزئی

ماربل کے کارخانے کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی قائم ہیں لیکن وہاں ماربل کا گدلا پانی نہ تو ندی نالوں میں شامل ہوتا ہے اور نہ ہی سیوریج لائنوں میں بہایا جاتا ہے بلکہ ہر فیکٹری میں زیر زمین ٹینک بنا ہوتا ہے، اور یہ سارا پانی اسی ٹینک میں جمع ہوتا رہتا ہے۔

پھر جب پانی میں شامل ماربل کے ذرات نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور اوپر پانی رہ جاتا ہے تو اسی پانی کو بذریعہ موٹر کھنیچ کر دوبارہ مشینوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹینک سے اس وقت تک پانی حاصل کیا جاتا ہے جب تک پورا ٹینک کیچڑ نہیں بن جاتا اور جب ٹینک کیچڑ سے بھر جاتا ہے تو اُسے نکال کر کسی خاص مقام پر پھنک دیا جاتا ہے۔

تاہم بونیر میں فیکٹری مالکان پیسے بچانے کے لیے زیرِ زمین ٹینک کے بجائے ماربل کا آلودہ پانی ندیوں میں خارج کر رہے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔

اس لاپروائی کی وجہ سے بونیر میں اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں ندیاں دودھ کی بہتی نہروں کا منظر پیش کر رہی ہیں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ حکومتی نمائندے اس مسئلے پر توجہ کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ حالانکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف کارخانے کے مالکان کو اس بات کا پابند بنانا ہے کہ وہ اپنے کارخانوں میں زیرِ زمین ٹنکیاں بنالیں تاکہ آلودہ پانی کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگایا جاسکے جس کے بعد یہ ندی نالے پہلے کی طرح شفاف اور خوبصورت ہوجائیں گی اور آبی حیات کو بھی ایک نئی زندگی مل سکے گی۔

ندی دودھ کی بہتی نہر کا منظر پیش کر رہی ہے—فراز احمد خان

بونیر میں واقع ایک ماربل کا کارخانہ—نصیب یار چغرزئی

تربیلا ڈیم

تحریک انصاف کی حکومت آبی ذخائر پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے اور نئے ڈیموں کی تعمیر پر غور کر رہی ہے، لیکن موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بونیر کے ماربل کارخانوں کی وجہ سے تربیلا ڈیم کو لاحق خطرے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔

دراصل ماربل کے کارخانے ہزاروں ٹن کیچڑ ماہانہ پیدا کرتے ہیں اور یہ کیچڑ ان ندیوں کے ذریعے تربیلا ڈیم میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کارخانوں سے ماہانہ خارج ہونے والا ہزاروں ٹن کیچڑ ڈیم تک پہنچتا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس ڈیم میں پانی کی گنجائش بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی۔

ماربل کا کارخانہ—فراز احمد خان

نہروں میں ماربل کیچڑ—نصیب یار چغرزئی

زراعت

ماربل کے ان کارخانوں سے زراعت کو بھی مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے اور کیوں نہ پہنچے؟ کھیتی باڑی کے لیے جن نہروں سے صاف پانی لیا جاتا تھا وہاں تو اب کچھ صاف بچا ہی نہیں۔ یہ بھی مقامی لوگوں کا سنگین مسئلہ ہے کیونکہ یہ شعبہ کئی گھرانوں کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھا، جو اب تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے۔

شہر میں بجلی کی فراہمی

بونیر کے ارد گرد پھیلے ان کارخانوں کی وجہ سے گھریلو صارفین کو فراہم کی جانے والی بجلی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ الگ انڈسٹری زون نہ ہونے کی وجہ سے متعدد جگہوں پر فیکٹریوں اور گھریلو صارفین کا ایک ہی پی ایم ٹی ہوتا ہے لہٰذا گھریلو صارفین کو کم وولٹیج کے ساتھ بجلی کی فراہمی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔

حل کیا ہے؟

ماربل کارخانوں سے جڑے مسائل پر روشنی ڈالنے کا ہرگز یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ ماربل کی صنعت کو بونیر سے ختم کردیا جائے۔ بس اس معاملے پر بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر حکومت اس طرف تھوڑی توجہ دے تو مذکورہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ماربل کی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، حکومتی اقدامات سے ان کا روزگار مزید منافع بخش بھی بنایا جاسکتا ہے۔

حکومت کو مندرجہ ذیل اقدمات کرنے کی ضرورت ہے

  • بونیر میں ایک ماربل انڈسٹری زون قائم کیا جائے اور تمام کارخانوں کووہاں منتقل کیا جائے۔
  • فیکٹری مالکان کو پابند بنایا جائے کہ وہ زیرِ زمین ٹینک بنائیں تاکہماربل کا کیچڑ بونیر کی ندیوں میں خارج ہونے سے روکا جاسکے، یوں ندیوں کاپانی، زراعت، آبی حیات اور تربیلا ڈیم، سب کو بچایا جاسکتا ہے۔
  • ماربل کے صنعتی زونز کے لیے بجلی کی فراہمی کا الگ سے بندوبست کیا جائےاور کارخانوں کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کیا جائے، اس طرح جہاں کارخانوںکی پیدوار میں اضافہ ہوگا وہیں گھریلو صارفین کو لاحق کم وولٹیج کامسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔

ماضی میں حکومتوں کی جانب سے ماربل انڈسٹری زون کے قیام کے اعلانات تو کیے جاتے رہے ہیں لیکن صورتحال جس سمت بڑھ رہی ہے اسے مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہوگیا ہے کہ اب اعلانات کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Read Comments