پاکستانیوں کی ذہنیت ان خیالات سے انجان ہے کیونکہ ان پر گزشتہ چند دہائیوں سے ظالم اور بے حس حکمرانوں کی حکمرانی کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔ ملک اس وقت خود کو نیک و کار دکھانے والوں کی گرفت میں ہے جو سیاسی جنگجؤں کو سنجیدہ دلائل کی جگہ فصول جملہ بازی کا سہارا لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔
جب میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالا گیا تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے نام کا ابتدائی حصہ کھو دیا اور پھر جب مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنا شروع کیا تو سرکاری میڈیا نے ان کے نام کا پہلا حصہ کھا لیا۔
اس کے علاوہ اصول 5 میں بھی مسائل دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس اصول کے مطابق ’جیل انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ قیدیوں کی آزادانہ زندگی اور قید میں گزرتی زندگی کے درمیان موجود تفریقات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے جن کے باعث قیدیوں کی ذمہ داری یا پھر بطور انسان ان کے وقار میں کمی آتی ہو‘۔
ہمارے وزرا شاید یہ پوچھنے لگ جائیں کہ اگر آزاد اور قید میں گزرتی زندگی میں فرق نہیں رکھا گیا تو لوگوں کو جیل میں ڈالنے کی کیا تُک بنتی ہے۔ لیکن ان کی سوچ سراسر غلط ہے۔
نیلسن منڈیلا سے منسوب یہ اصول پاکستانی حکام اور بدلے پر مصالحت کو فوقیت دینے پر مبنی ان کے عقیدے کے لیے بے معنی سی چیز ہیں۔
پاکستان میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناگوار سلوک کی جڑیں اشرافیہ کے غرور و تکبر اور ان کی اس ثقافت میں پیوست ہیں جس میں انسانوں کے مساوی حقوق اور عظمت کی کوئی جگہ نہیں۔
یہ مضمون 14 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔